اس شخص کے حج کے بارے میں کیا حکم ہے جو معصیت کے کاموں پر اصرار کرتا ہو یا صغیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتا رہتا ہو؟
اس کا حض تو صحیح ہے بشرطیکہ وہ مسلمان ہو لیکن ہے حج ناقص، اس کے لیے یہ لازم ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرے خصوصا جب وہ مکہ مکرمہ میں حج کے لیے آیا تو اسے تمام گناہوں سے توبہ کرنی چاہیے اور جو شخص توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی توبہ کو قبول فرما لیتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اے مومنو! سب اللہ کے آگے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔"
اور فرمایا:
"اے مومنو! اللہ کے آگے صاف دل سے توبہ کرو امید ہے کہ وہ تمہارے گناہ تم سے دور کر دے گا اور تم کو باغ ہائے بہشت میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں داخل کرے گا۔"
"توبۃ النصوح" یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت اور اس کے عذاب کے خوف سے گناہوں کو ترک کر دے۔ ماضی میں جو گناہ ہوئے ان پر ندامت کا اظہار کرے اور اس بات کا سچا ارادہ کرے کہ وہ آئندہ ان کا ارتکاب نہیں کرے گا۔ توبہ کی تکمیل کے لیے یہ بھی ضرروی ہے کہ جن لوگوں کو جانی، مالی یا عزت وآبرو کا نقصان پہنچایا ہو تو اسے پورا کرے یا ان سے معاف کروا لے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اصلاح قلوب اور اعمال کی توفیق بخشے اور ہم پر اور ان سب پر یہ احسان فرمائے کہ ہم تمام گناہوں سے پکی سچی توبہ کر سکیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب