کیا رمضان میں عمرہ کی فضیلت مہینے کے اول، اوسط یا آخری حصہ کے ساتھ مخصوص ہے؟
رمضان میں جب بھی عمرہ کیا جائے فضیلت حاصل ہو گی اور یہ فضیلت اول، اوسط یا آخری حصہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد عام ہے:
"رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے"
آپ نے اسے کسی خالص وقت کے ساتھ مقید نہیں فرمایا۔ جو شخص رمضان میں سفر کر کے جائے اور عمرہ ادا کرے تو اس کا ثواب ایسے ہے جیسے اس نے حج کیا۔ میں یہاں ان بھائیوں کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہوں گا جو عمرہ ادا کرنے کے لیے مکہ مکرمہ جاتے ہیں تو کچھ لوگ رمضان شروع ہونے سے ایک یا دو دن پہلے عمرہ کر لیتے ہیں اور اس طرح وہ رمضان میں عمرہ کے ثواب سے محروم رہتے ہیں، لہذا اگر وہ اپنے سفر کو تھوڑا سا مؤخر کر دیں تاکہ وہ رمضان میں عمرہ کا احرام باندھ سکیں تو یہ بہت بہتر اور افضل ہے۔
اسی طرح ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ بعض لوگ مہینے کے ابتدائی حصہ میں عمرہ کے لیے آتے ہیں اور پھر مہینے کے درمیان میں تنعیم جا کر دوسرے عمرے کا احرام اور اسی طرح مہینے کے آخر میں پھر تنعیم جا کر تیسرے عمرے کا احڑام باندھ لیتے ہیں تو یہ عمل بے اصل ہے۔ شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال مکہ مکرمہ میں انیس دن قیام فرمایا تھا لیکن دوسرے عمرہ کے لیے آپ تنعیم تشریف نہیں لے گئے تھے، حالانکہ آپ نے مکہ مکرمہ کو رمضان ہی میں فتح فرمایا تھا مگر قتال کے خاتمہ کے بعد آپ عمرہ کے لیے تنعیم نہیں گئے بلکہ آپ نے عمرہ ذوالقعدہ میں غزوہ طائف سے واپسی کے وقت ادا فرمایا۔ اس موقع پر مقام جعرانہ میں آپ نے قیام فرمایا اور وہاں ہی غنیمتوں کو تقسیم فرمایا تھا، اسی اثناء میں جعرانہ ہی سے ایک رات عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ میں تشریف لائے تھے اور پھر اسی رات عمرہ ادا کرنے کے بعد واپس تشریف لے گئے۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کو مکہ سے نکل کر تنعیم یا کسی اور دوسری جگہ نہیں جانا چاہیے تاکہ وہاں سے احرام باندھ کر ایک اور عمرہ کر سکے۔ اگر یہ نیکی کا کام ہوتا تو اسے سب سے پہلے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سر انجام دیتے کیونکہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ آپ کو سب لوگوں سے زیادہ نیکی کا شوق تھا اور پھر آپ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے امت تک احکام شریعت کے پہنچانے والے ہیں، لہذا اگر یہ حکم شریعت ہوتا تو آپ اسے امت کے سامنے قول، فعل یا تقریر کے ذریعے ضرور بیان فرما دیتے، لیکن جب ان میں سے کوئی صورت بھی موجود نہیں تو پھر ہمیں صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ اتباع سنت ہی بہتر ہے، خواہ وہ عمل کم ہی کیوں نہ ہوں اس بدعت سے خواہ وہ کم ہو یا زیادہ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب