ایک عورت نے یہ سوال پوچھا ہے کہ وہ حالت حیض میں تھی کہ اس کے اہل خانہ نے عمرہ کے لیے جانے کا پروگرام بنا لیا اگر یہ ان کے ساتھ نہ جاتی تو گھر میں اکیلی رہ جاتی، یہ ان کے ساتھ چلی گئی اور اس نے عمرہ کے تمام ارکان طواف اور سعی وغیرہ اس طرح مکمل کر لیے گویا اسے کوئی عذر نہیں تھا کیونکہ ایک تو یہ جاہل تھی، اسے حکم شریعت کا علم نہیں تھا اور دوسرا اس نے شرمندگی کی وجہ سے اپنی حالت کے بارے میں اپنے والی کو نہیں بتایا تھا، بالخصوص وہ ان پڑھ تھی، پڑھنا لکھنا نہیں جانتی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اب اس کے لیے کیا حکم ہے؟
جب اس نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ عمرہ کا احرام باندھ لیا تو اسے چاہیے کہ غسل کے بعد دوبارہ طواف کرے اور دوبارہ بال کٹوائے، جب کہ علماء کے صحیح قول کے مطابق اس مذکورہ حالت میں سعی جائز ہے اور اگر یہ طواف کے بعد سعی بھی دوبارہ کر لے تو یہ بہتر ہے اور اس میں زیادہ احتیاط بھی ہے۔ حالت حیض میں اس نے جو طواف کر لیا اور طواف کی دو رکعتیں بھی پڑھ لیں تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرنی چاہیے۔
اگر یہ عورت شادی شدہ ہے، تو عمرہ کی تکمیل سے قبل اس کے شوہر کے لیے مقاربت جائز نہیں ہے اور اگر اس نے عمرہ کی تکمیل سے پہلے مقاربت کر لی ہے، تو اس سے عمرہ فاسد ہو گیا اور اس پر دم لازم ہو گیا اور وہ یہ کہ ایک بھیڑ یا دو دانت والی (دوندی) بکری ذبح کر کے مکہ مکرمہ کے فقراء میں تقسیم کی جائے اور اس عمرہ کی تکمیل کرے اور اس فاسد عمرہ کے بجائے دوسرا عمرہ کرے جس کا احرام اسی میقات سےباندھے، جہاں سے پہلے عمرہ کا احرام باندھا تھا اور اگر اس نے طواف و سعی محض شرم و حیا کی وجہ سے کیا ہے اور میقات سے عمرہ کا احرام نہیں باندھا تھا، تو پھر سوائے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں توبہ کے سوا اور کچھ اس پر لازم نہیں ہے کیونکہ عمرہ اور حج، احرام کے بغیر صحیح نہیں ہیں۔ اور احرام یہ ہے کہ عمرہ یا حج یا دونوں ہی کی نیت کی جائے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور شیطان کے وسوسوں سے محفوظ رکھے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب