میں گزشتہ رمضان المبارک میں عمرہ کے لیے گیا اور جب طواف شروع کیا تو ازدحام کی شدت کی وجہ سے اسے مکمل نہ کر سکا اور مکہ مکرمہ سے اپنے شہر واپس آ گیا، واپسی ستائیس تاریخ کو تھی، اب آنجناب سے سوال ہے کہ اس صورت میں مجھ پر کیا لازم ہے؟ یاد رہے کہ میری صحت الحمدللہ بہت اچھی ہے، رہنمائی فرمائیں۔
آپ نے غلطی کی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو معاف فرمائے۔ آپ پر یہ واجب تھا کہ عمرہ کی کسی دوسرے وقت تکمیل کر لیتے جب رش نہ ہوتا کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور اللہ (کی کوشنودی) کے لیے حج اور عمرے کو پورا کرو۔"
علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص حج یا عمرہ کا احرام باندھ لے تو اس پر واجب ہے کہ اس کی تکمیل کرے اور عمرہ کے تمام اعمال سے فراغت کے بعد ہی احرام کھولے، الا یہ کہ وہ محصر ہو یا اس نے مشروط احرام باندھا ہو اور وہ شرط پوری ہو گئی ہو لیکن آپ کے سلسلہ میں کوئی ایسی کوئی بات نہ تھی،لہذا آپ کو توبہ کرنی چاہیے۔ اور اگر آپ نے مذکورہ مدت میں اپنی بیوی سے صحبت کر لی ہے تو پھر آپ پر دم بھی واجب ہے اور وہ یہ کہ اونٹ یا گائے کے ساتویں حصہ یا ایک عدد بھیڑ یا بکری کی قربانی دی جائے اور اگر آپ کو یہ علم تھا کہ ایسا کرنا جائز نہیں تو پھر آپ کو توبہ کے ساتھ ساتھ چھ مسکینوں کو کھانا بھی کھلانا چاہیے اور وہ یہ کہ ہر مسکین کو شہر کی خوراک کے مطابق نصف صاع گندم یا چاول وغیرہ دیں یا ایک عدد بکری ذبح کریں یا تین روزے رکھیں کیونکہ آپ نے سلے ہوئے کپڑے پہن لیے ہیں۔ اگر مذکورہ مدت میں سر ڈھانپ لیا ہو یا خوشبو استعمال کر لی ہو یا ناخن تراش لیے ہوں یا بال منڈا لیے ہوں تو ان سب کا کفارہ بھی اسی طرح ہے اور اگر آپ نے جہالت کی وجہ سے مذکورہ کام کیا ہے تو پھر آپ پر مذکورہ فدیہ میں سے کچھ بھی واجب نہیں ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اے ہمارے رب! اگر ہم سے بھول یا چوک ہو گئی ہو تو ہم سے مؤاخذہ نہ کرنا۔"
اور صحیح حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرما لیا ہے۔"[1]
نیز دیگر دلائل سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔
[1] صحیح مسلم، الایمان، باب بیان تجاوز اللہ تعالیٰ عن حدیث النفس الخ، حدیث: 126