سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

مکہ مکرمہ میں مقیم جب عمرہ کا ارادہ کرے

  • 9195
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 1187

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اہل مکہ میں سے یا مکہ میں آنے والے لوگوں میں سے جب کوئی عمرے کا ارادہ کرے تو وہ کہاں سے احرام باندھے؟ کیا مکہ ہی سے یا حل سے یا اپنے ملک کے میقات سے؟ امید ہے دلیل کے ساتھ اس مسئلہ میں مستفید فرمائیں گے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مکہ میں مقیم لوگوں میں سے جب کوئی عمرہ کا ارادہ کرے، خواہ وہ مکہ مکرمہ کے باشندوں میں سے ہو یا باہر کسی دوسرے ملک سے آیا ہو، تو اس کے لیے مشروع یہ ہے کہ وہ حل سے احرام باندھے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جب حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ مکرمہ میں مقیم تھیں اور انہوں نے عمرہ کا ارادہ کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ حرم سے باہر جا کر احرام باندھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے ساتھ آپ کے بھائی عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کو بھیج دیا تھا جن کے ساتھ جا کر آپ نے مقام تنعیم سے احرام باندھا۔[1] یہ جگہ آج کل مسجد عائشہ کے نام سے معروف ہے۔ بعض اہل علم کا یہ مذہب ہے کہ اہل مکہ کے لیے عمرہ نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب رمضان میں مکہ کو فتح کیا تو آپ عمرہ کے لیے مکہ سے باہر نہیں نکلے، لیکن پہلا قول ہی صحیح ہے۔ حضرت عائشہ سے مروی مذکورہ حدیث کے پیش نظر جمہور اہل علم کا بھی یہی قول ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال سے باہر جا کر احرام نہیں باندھا تو یہ عمرہ کی عدم مشروعیت کی دلیل نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات ایک چیز کو بہت سے اسباب کی وجہ سے ترک کر دیا کرتے تھے اور بعض صحابہ کو اس کا حکم بھی دے دیا کرتے تھے تاکہ امت کو اس کی مشروعیت کا بھی علم ہو جائے جیسا کہ آپ نے ابوہریرہ[2] اورابوالدرداء رضی اللہ عنہ کو [3]تو نماز ضحیٰ پڑھنے کی تاکید فرمائی لیکن آپ خود اسے ہمیشہ نہیں پڑھا کرتے تھے، اسی طرح آپ نے نفل روزے کے بارے میں فرمایا کہ اس کی افضل صورت حضرت داود علیہ السلام کے روزہ کی ہے [4]اور وہ یہ کہ ایک دن روزہ رکھ لیا جائے اور ایک دن افطار کر دیا جائے لیکن بعض اسباب کے پیش نظر آپ خود اس کی پابندی نہیں فرمایا کرتے تھے اور ان اسباب میں سے ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ آپ کو امت کے مشقت میں پڑ جانے کا اندیشہ تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی وہ حدیث جو بالاتفاق صحیح ہے کہ جو لوگ میقات کے اندر رہتے ہوں تو وہ حج اور عمرہ کا احرام اپنی جگہ ہی سے باندھیں تو یہ حکم مکہ مکرمہ میں مقیم لوگوں کے صرف حج کے لیے ہے اور عمرہ کے لیے واجب یہ ہے کہ اسکا حل سے احرام باندھا جائے جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ حديث سے ثابت ہے[5] اور اس طرح ان دونوں حدیثوں میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے۔


[1] صحیح بخاری، باب کیف تھل الحائض والنفساء، حدیث: 1556 وصحیح مسلم، الحج ، حدیث: 1211

[2] صحیح بخاری، التھجد، باب صلاۃ الضحیٰ فی الحضر، حدیث: 1178 وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب استحباب صلاۃ الضحیٰ، حدیث: 721

[3] سنن ابن ماجہ، الفتن، باب الصبر علی البلاء، حدیث: 4034-3371

[4] صحیح بخاری، فضائل القرآن باب فی کم یقراء القرآن، حدیث: 5052

[5] صحیح بخاری، باب کیف تھل الحائض والنفساء، حدیث: 1556 وصحیح مسلم، الحج ، حدیث: 1211

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ