سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

نا واقفیت کی وجہ سے عید کے دن سے پہلے قربانی کرنا

  • 9187
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1004

سوال

نا واقفیت کی وجہ سے عید کے دن سے پہلے قربانی کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم نے ایک گروپ کی صورت میں حج تمتع کے لیے احرام باندھا، عمرہ ادا کیا اور حلال ہو گئے۔ اسی اثناء میں بعض نے کہا کہ قربانی کر کے اسے مکہ میں تقسیم کر دیا جائے، چانچہ ایسا ہی کیا گیا، لیکن پھر ہمیں معلوم ہوا کہ قربانی تو جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد ہی ہونی چاہیے اور مجھے اس بات کا علم بھی تھا اور میں نے یہ کہا بھی کہ قربانی کو عید کے دن یا اس کے بعد کریں لیکن گروپ کے ساتھیوں نے اسی بات پر اصرار کیا کہ عمرہ ادا کرنے کے بعد اسی دن قربانی کر دی جائے۔ اس مسئلہ میں ہمارے لیے کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو شخص عمرہ یا تمتع کے دم کو عید کے دن سے پہلے ذبح کر دے تو یہ جائز نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے قربانی کے جانوروں کو ایام نحر ہی میں ذبح کیا تھا اور وہ چار ذوالحج کو مکہ مکرمہ میں حج تمتع کے لیے تشریف لائے تھے۔ قربانی کے دن تک بکریاں اور اونٹ ان کے پاس رہے۔ اگر اس دن سے پہلے انہیں ذبح کرنا جائز ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ان چار دنوں میں انہیں ذبح کر دیتے جن میں وہ منیٰ کی طرف تشریف لے جانے سے پہلے مکہ مکرمہ میں مقیم رہے اور پھر اس وقت لوگوں کو گوشت کی ضرورت بھی تو تھی لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے قربانی کے دن سے پہلے جانوروں کو ذبح نہیں کیا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قربانی کے دن سے پہلے قربانی کے جانوروں کو ذبح کرنا جائز نہیں ہے۔ لہذا جو شخص قربانی کے دن سے پہلے ذبح کرتا ہے، وہ سنت کی خلاف ورزی کرتا اور نئی شریعت ایجاد کرتا ہے۔ جس طرح قبل از وقت فرض نماز اور روزہ جائز نہیں اسی طرح وقت سے پہلے قربانی بھی جائز نہیں۔

خلاصہ یہ کہ یہ عبادت چونکہ وقت سے پہلے ادا کی گئی ہے لہذا یہ صحیح نہ ہوئی۔ اگر استطاعت ہو تو قربانی دوبارہ کرنی ہو گی اور عدم استطاعت کی صورت میں تین روزے ایام حج میں اور سات گھر واپس آ کر رکھنے ہوں گے یعنی عدم استطاعت کی صورت میں قربانی کے بجائے دس دن کے روزے رکھنے ہوں گے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے