سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

کیا ہدی کی طاقت رکھنے والے کے لیے یہ۔۔۔

  • 9184
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 787

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہدی سے بہت کم استفادہ کیا جاتا ہے، تو کیا یہ افضل نہیں ہے کہ جسے ہدی کی طاقت ہو وہ روزے رکھ لے اور واپس آ کر اپنے وطن کے مسکینوں میں ہدی کی قیمت تقسیم کر دے؟ اس مسئلہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یاد رہے کہ احکام شریعت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لیے جاتے ہیں۔ یہ لوگوں کی آراء پر   مبنی نہیں ہوتے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں حکم یہ دیا ہے کہ حاجی اگر متمتع یا قارن ہو تو وہ قربانی کرے، اور اگر اسے قربانی کرنے کی استطاعت نہ ہو تو پھر وہ دس روزے رکھے تین ایام حج میں اور سات اپنے گھر واپس آ کر۔ ہمیں اس بات کا حق نہیں ہے کہ ہم از خود احکام شریعت وضع کر لیں، لہذا جب یہ ہے کہ قربانی میں جو خرابی کی صورت پیدا ہو گئی ہے، اس کی اصلاح کی جائے اور وہ یہ کہ حکمرانوں کو توجہ دلائی جائے کہ قربانی کے جانوروں کے گوشت کی فقراء و مساکین میں تقسیم کا صحیح انتظام کیا جائے، جانوروں کے ذبح کرنے کی جگہوں کا خصوصی اہتمام کیا جائے، ان کو کشادہ بھی کیا جائے اور ان کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جائے تاکہ حجاج کرام بروقت سہولت کے ساتھ اپنی قربانی کے جانوروں کو ذبح کر سکیں۔ حکمرانوں پر فرض ہے کہ وہ قربانی کے گوشت کی مستحقین میں تقسیم کا مناسب انتظام کریں۔ فوری طور پر تقسیم ممکن نہ ہو تو ان کے لیے کولڈ ستوریج کا اہتمام کریں تاکہ اسے ضائع ہونے سے بچایا جا سکے اور بعد میں مکہ اور دیگر ممالک کے فقراء میں تقسیم کیا جا سکے۔

جہاں تک قربانی کے نظام میں تبدیلی کا تعلق ہے کہ اس کی استطاعت رکھنے والا بھی قربانی کرنے کے بجائے روزے رکھ لے یا اپنے ملک کے فقراء کے لیے قربانی کے جانور خرید لے یا اس کی قیمت ہی ان میں تقسیم کر دے تو یہ ایک نئی شریعت ہے۔ مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اسے اختیار کرے کیونکہ شارع اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات گرامی ہے، اس کے علاوہ کسی اور کو شریعت سازی کا حق حاصل نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿أَم لَهُم شُرَ‌كـٰؤُا۟ شَرَ‌عوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ...٢١... سورة الشورى

"کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے ایسا دین مقرر کیا ہے جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا۔"

مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ اللہ تعالٰٰ کی نازل کردہ شریعت کے سامنے سر اطاعت ختم کر دیں، اسے نافذ کریں اور اگر لوگوں کی طرف سے اس کی تنفیذ میں کوئی خلل واقع ہو تو اس کی اصلاح واجب ہے جیسا کہ حج کے موقع پر قربانیاں تو کیا جاتی ہیں مگر ایسا کوئی معقول انتظام نہیں کہ انہیں مستحقین تک پہنچا جا سکے، لہذا حکمرانون پر واجب ہے کہ وہ اس کی طرف خصوصی توجہ مبذول کریں اور قربانی کے گوشت کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ اسی طرح ہر مسلمان پر بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنی قربانی کی حفاظت کرے، اسے خود مسکینوں میں تقسیم کرے یا خود کھائے یا بعض دوستوں اور بھائیوں کو ہدیہ دے یہ جائز نہیں کہ قربانی کر کے کسی ایسی جگہ رکھ دی جائے، جہاں اس سے استفادہ نہ کیا جا سکتا ہو۔

حکمرانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ایسا انتظام کریں کہ گوشت کو بروقت فقراء و مساکین میں تقسیم کیا جا سکے یا پھر اسے فورا کولڈ سٹوریج منتقل کر دیں تاکہ اسے بعد میں تقسیم کیا جا سکے اور اسے ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔ حکمرانوں کا یہ فرض ہے اور وہ اس فرض سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے سرگرم عمل بھی ہیں۔ اہل علم بھی انہیں ہمیشہ اس سلسلہ میں توجہ دالتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی مدد فرمائے کہ ہم اس ارباب (معاملے) میں بھی اور دیگر ابواب (معاملات) میں بھی وہ کام کریں جن میں مسلمانوں کی مصلحت اور خیرخواہی ہو۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ