جب کوئی حج یا عمرہ کے لیے لبیک کہتا ہوا میقات سے گزر جائے اور اس نے نیت کرتے ہوئے کسی شرط کو عائد نہ کیا ہو اور اسے بیماری وغیرہ کی وجہ سے رکاوٹ پیش آ جائے جس کی وجہ سے وہ حج یا عمرہ کو مکمل نہ کر سکتا ہو تو اسے کیا کرنا چاہیے؟
اس طرح کے شخص کو "محصر" کہتے ہیں۔ اگر اس نے کوئی شرط نہ بھی ذکر کی ہو اور اسے کوئی ایسی رکاوٹ پیش آ جائے جس کی وجہ سے وہ (حج یا عمرہ) مکمل نہ کر سکتا ہو تو اس صورت میں اگر اس کے لیے صبر کرنا ممکن ہو کہ شاید یہ رکاوٹ دور ہو جائے اور اس کے لیے حج یا عمرہ کو مکمل کرنا ممکن ہو جائے تو اسے صبر کرنا چاہیے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو صحیح بات یہ ہے کہ وہ محصر ہے اور محصر کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور اگر تم (راستے میں) روک لیے جاؤ تو جیسی قربانی مسیر ہو (کر دو) اور جب قربانی اپنے مقام پر پہنچ نہ جائے سر نہ منڈاؤ۔"
صحیح بات یہ ہے کہ یہ رکاوٹ دشمن کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے اور دشمن کے علاوہ کسی اور وجہ سے بھی، تو اس صورت میں قربانی کر دی جائے، بال منڈوا یا کٹوا دئیے جائیں اور احرام کھول دیا جائے۔ محصر کے لیے یہی حکم ہے کہ اسے جہاں روک دیا جائے، وہ وہاں جانور ذبح کر دے خواہ وہ جگہ حدود حرم کے اندر ہو یا اس سے باہر، اور قربانی کے گوشت کو اسی جگہ کے فقراء میں تقسیم کر دے خواہ وہ جگہ حرم سے باہر ہو اور اگر وہاں گوشت لینے والے لوگ موجود نہ ہوں تو اسے فقرائے حرم کے پاس یا اس جگہ کے گرد و پیش یا بعض بستیوں وغیرہ کے فقراء کے پاس پہنچا دیا جائے۔ قربانی کے بعد بال منڈڈڈوائے یا کٹوائے اور احرام کھول دے۔ اور اگر قربانی کی طاقت نہ ہو تو دس روزے رکھ لے اور پھر بال منڈوا یا کٹوا دے اور احرام کھول دے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب