سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

جو شخص بارہویں تاریخ کی رمی ترک کر دے۔۔۔

  • 9170
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 613

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں اپنی بیوی کے ساتھ دوسری مرتبہ فریضہ حج ادا کر رہا تھا، میرے بچے ریاض میں تھے۔ دوسرے جمرہ کو رمی کرنے کے بعد ہم مکہ میں آ گئے، حج مکمل کر لیا اور ریاض کے لیے سفر پر روانہ ہو گئے کیونکہ دل میں بچوں کا خیال تھا۔ ہم نے ایک قریبی رشتہ دار کو اپنا وکیل مقرر کر دیا کہ وہ یماری طرف سے رمی جمرات کر دے تو کیا یہ جائز ہے؟ اس صورت میں ہم پر کیا واجب ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ دونوں میاں بیوی پر یہ لازم ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرو کیونکہ آپ نے بارہویں دن کی رمی کو ترک کیا جو کہ واجب تھی اور پھو طواف وداع کو بروقت نہیں کیا کیونکہ اس کا وقت اختتام رمی کے بعد ہے۔ آپ دونوں میں سے ہر ایک پر یہ واجب ہے کہ وہ ایسے دو جانور مکہ میں ذبح کرے جن کی قربانی جائز ہو اور انہیں فقرائے حرم میں تقسیم کر دیا جائے۔ ان میں سے ایک ایک جانور بارہویں دن ترک رمی کی وجہ سے ہے اور دوسرا جانور طواف وداع ترک کرنے کی وجہ سے ہے اور طواف وداع بھی واجب ہے لیکن آپ نے اسے قبل از وقت کیا ہے اور بارہویں رات منیٰ میں بسر نہ کرنے کی وجہ سے مقدور بھر صدقہ بھی کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اور آپ کے گناہوں کو معاف فرما دے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ