کیا حاجی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ ایام تشریق کے تمام جمروں کو ایک ہی دن میں رمی کر دے، خواہ وہ ایام تشریق میں سے پہلا دن ہو یا دوسرا یا تیسرا اور منیٰ میں دو یا تین دن بسر کرے اور رمی نہ کرے تو کیا اس طرح ایک ہی دن رمی کرنا صحیح ہے یا یہ ضروری ہے کہ رمی میں ایام کی ترتیب کو ملحوظ رکھا جائے، امیدہے دلیل کے ساتھ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں گے؟
رمی جمار حج کے واجبات میں سے ہے اور غیر متعجل کے لیے عید کے دن اور ایام تشریق میں رمی کرنا واجب ہے۔ اور متعجل کے لیے یہ واجب ہے کہ وہ ایام تشریق کے پہلے دو دنوں میں رمی کرے اور ہر روز زوال کے بعد رمی کرے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال کے بعد رمی کی تھی اور حج کے سلسلہ میں آپ کا مشہور ارشاد گرامی ہے:
"حج کے احکام و اعمال مجھ سے سیکھو۔"
لہذا قبل از وقت رمی کرنا جائز نہیں ہے۔ ہاں البتہ شدید ضرورت مثلا بہت زیادہ بھیڑ وغیرہ کی صورت میں اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک اسے مؤخر کرنا جائز ہے۔ ان اہل علم نے یہ بات ان چرواہوں وغیرہ پر قیاس کرتے ہوئے فرمائی ہے جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رخصت عطا فرمائی تھی کہ وہ دو دنوں کی رمی دوسرے دن یعنی بارہ تاریخ کو کر لیں[1] اور ترتیب کے لیے نیت کر لیں۔ رمی کے لیے پہلا دن عید کا ہے اور پھر ایام تشریق کا پہلا دوسرا اور پھر تیسرا دن ہے، بشرطیکہ عجلت کا مسئلہ درپیش نہ ہو اور پھر طواف وداع رمی کے بعد ہوتا ہے۔
[1] سنن ابی داود، المناسک، باب فی رمی الجمار، حدیث: 1975 و جامع ترمذی، حدیث: 954 وسنن نسائی، حدیث: 3070 وسنن ابن ماجہ، حدیث: 3036