حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ میں یہ آیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے شام ہونے کے بعد رمی کی ہے، تو آپ نے فرمایا "کوئی حرج نہیں" اس حدیث کو امام بیہقی نے صحیح قرار دیا ہے تو کیا یہ صحیح ہے کہ قربانی کے دن غروب آفتاب کے بعد جمرہ عقبہ کو رمی کرنا جائز ہے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قربانی کے دن (ایام تشریق میں نہیں) یہ سوال کیا گیا جیسا کہ بخاری میں ہے[1] کہ ایک صحابی نے آپ سے یہ پوچھا کہ میں نے شام کے بعد رمی کی ہے یعنی دن کے آخری حصہ میں رمی کی ہے، تو یہ سب کے نزدیک جائز ہے کہ عید کے دن ظہر یا عصر کے بعد دن کے آخری حصہ میں رمی کر لی جائے، اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ اس صحابی نے رات کو رمی کی تھی کیونکہ اس نے تو یہ سوال ہی رات کے آنے سے پہلے کیا تھا۔ غروب آفتاب کے بعد رمی کرنے کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض نے کہا کہ یہ جائز ہے اور یہی قول قوی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ غروب آفتاب کے بعد رمی کرنا جائز نہیں بلکہ اس صورت میں مؤخر کر دے اور پھر گیارہ تاریخ کو زوال آفتاب کے بعد رمی کرے، لیکن علماء فرماتے ہیں کہ گیارہویں تاریخ کے جمرات سے پہلے جمرہ عقبہ کو رمی کر لے۔ مسلمان کو چاہیے کہ کوشش کر کے عید کے دن جمرہ عقبہ کو دن کے وقت رمی کر لے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام نے کیا تھا، اسی طرح رمی کے دیگر ایام میں زوال کے بعد مگر غروب آفتاب سے پہلے پہلے رمی کرے۔ اگر مشکل درپیش ہو، سورج غروب ہو جائے اور رمی نہ کر سکے تو پھر صحیح قول کے مطابق غروب کے بعد سے لے کر رات کے آخری حصہ تک رمی کرنا جائز ہے۔
[1] صحیح بخاری، الحج، باب اذا رمیٰ بعد ما امسی الخ، حدیث: 1735