کیا یہ جائز ہے کہ عید کی رات مزدلفہ سے منیٰ آنے کے بعد رات کے وقت جمرہ عقبہ کو رمی کر دی جائے اور صحیح حدیث میں جو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلمان بنی عبدالمطلب سے فرمایا تھا:
"سورج طلوع ہونے تک جمرہ کو رمی نہ کرو۔"
تو اس حدیث کا کیا مفہوم ہے؟
طاقتور لوگوں کے لیے افضل یہ ہے کہ عید کے دن جمرہ عقبہ کو طلوع آفتاب کے بعد رمی کریں تاکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء اور مذکورہ حدیث کے مطابق عمہ ہو سکے، جہاں تک معذوروں اور کمزوروں کا تعلق ہے تو ان کے لیے رات کے نصف اخیر میں بھی رمی کرنا جائز ہے جیسا کہ اس مسئلہ سے متعلق احادیث سے یہ ثابت ہے مثلا عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نحر والی رات حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو بھیجا تو انہوں نے فجر سے پہلے جمرہ کو رمی کی تھی۔[1]
اسی طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عبداللہ مولیٰ اسماء سے روایت کیا ہے کہ وہ مزدلفہ کی رات مزدلفہ میں آئیں اور کچھ دیر نماز پڑھتی رہیں اور پھر کہنے لگیں اے میرے بیٹے! کیا چاند غروب ہو گیا ہے؟ میں نے کہا نہیں، تو وہ وہ کچھ دیر نماز پڑحتی رہیں، پھر کہا، کیا چاند غروب ہو گیا ہے؟ میں نے کہا ہاں، تو انہوں نے کہا کہ پھر اب کوچ کرو، چنانچہ ہم نے کوچ کیا حتیٰ کہ انہوں نے جمرہ عقبہ کو رمی کیا، پھر واپس لوٹ آئیں، اور صبح کی نماز اپنی رہائش پر ادا کی۔ میں نے کہا کہ ابھی تک تو بہت اندھیرا ہے تو انہوں نے کہا اے بیٹے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو اس کی اجازت دے دی تھی۔[2] باقی رہی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ جس میں طلوع آفتاب کے بعد رمی کا ذکر ہے تو بعض اہل علم نے اسے ضعیف قرار دیا ہے کیونکہ اس کی سند منقطع ہے۔ اور اگر اسے صحیح بھی فرض کر لیا جائے تو یہ استحباب اور افضیلت پر محمول ہو گا تاکہ اس مسئلہ سے متعلق تمام احادیث میں تطبیق دی جا سکے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی فرمایا ہے۔
[1] ابو داود، المناسک، باب التعجیل من جمع، حدیث: 1942
[2] صحیح بخاری، الحج، باب من قدم ضعفۃ اھلہ بلیل فیقفون...الخ، حدیث: حدیث: 1679