سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

رمی جمار کا وقت

  • 9154
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1360

سوال

رمی جمار کا وقت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تینوں ایام تشریق میں رمی جمار کا وقت کب شروع ہوتا ہے اور کب ختم ہوتا ہے؟ کیا یہ صحیح ہے کہ خاص ان دنوں میں حاجی کو چاہیے کہ ان جمروں کو رات کو رمی کر لے کیونکہ دن کے وقت بے پناہ رش کی وجہ سے رمی کرنا بے حد مشکل ہوتا ہے، لہذا بعض لوگ اس صحیح حدیث سے استدلال کرتے ہیں جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قربانی کے دن منیٰ میں سوال کیا جا رہا تھا تو آپ نے فرمایا:

(لا حرج)

"کوئی حرج نہیں۔"

ایک آدمی نے آپ سے یہ سوال کیا کہ میں نے قربانی سے پہلے بال منڈوا دئیے ہیں تو آپ نے فرمایا:

(اذبح ولا حرج)

"اب قربانی کر لو کوئی حرج نہیں۔"

ایک نے کہا کہ میں نے مغرب کے بعد رمی کی ہے تو آپ نے فرمایا:

(لا حرج)

"کوئی حرج نہیں۔"

ان حضرات کا استدلال یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو رمی کی اجازت دے دی تھی جبکہ قربانی کے دن حاجی کے لیے رمی کرنا ایک انتہائی اہم واجب ہے، حتیٰ کہ وہ تحلل اول کی صورت میں حلال ہو جائے تو باقی تینوں ایام تشریق میں وہ رات کو رمی کیوں نہیں کر سکتا جبکہ وہ یوم نحر کی نسبت کم وجوب کے حامل ہیں، تو یہ گویا اس بات کی دلیل ہے کہ تینوں ایام تشریق میں رات کے وقت بھی رمی کرنا جائز ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو رات کو رمی جمار کرے، کیا اس پر کوئی فدیہ لازم ہے یا نہیں؟ امید ہے کہ عزت مآب مدلل اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں گے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایام تشریق میں رمی جمار کا وقت زوال آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک   ہے کیونکہ صحیح مسلم میں حضرت جابر   رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

(رمي رسول الله صلي الله عليه وسلم الجمرة يوم النحر ضحي‘ واما بعد‘ فاذا زالت الشمس) (صحيح مسلم‘ الحج‘ باب بيان وقت استحباب الرمي‘ ح: 314/1299)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رقربانی کے دن ضحیٰ کے وقت اور   اس دن   کے بعد زوال کے بببعد رمی کی۔"

اور امام بخاری نے یہ روایت ذکر فرمائی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اس مسئلہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:

(كنا نتحين‘ فاذا زالت الشمس رمينا) (صحيح البخاري‘ الحج‘ باب رمي الجمار‘ ح: 1746)

"ہم انتظار کرتے تھے اور جب آفتاب زوال پذیر ہو جااتا تو ہم رمی کرتے۔"

جمہور علماء کا بھی یہی   مذہب ہے، ہاں البتہ اگر کوئی شخص رات کو کسی مجبوری کی وجہ سے رمی کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن زیادہ احتیاط اس میں ہے کہ جسے استطاعت ہو تو وہ غروب آفتاب سے پہلے پہلے رمی کر لے تاکہ سنت کے مطابق عمل ہو سکے اور اختلاف سے بھی بچا جا سکے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت رات کو رمی کرنے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ سائل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قربانی کے دن سوال کیا تھا، لہذا اس کے الفاظ "بعد ما امسیت" کے معنی زوال کے بعد کے ہیں، ہاں البتہ رات کو رمی کرنے کے بارے میں اس سے یہ استدلال ضرور کیا جا سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی یسی نص صریح ثابت نہیں ہے جو اس بات پر دلالت کناں ہو کہ رات کو رمی کرنا جائز نہیں ہے کہ اصل تو جواز ہے لیکن افضل اور زیادہ احتیاط تو اس میں ہے کہ دن کے وقت رمی کی جائے اور اگر رات کو رمی کرنے کی ضرورت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں، البتہ اگلے دن کی رمی سابقہ رات میں نہ کرے۔ لیکن کمزور لوگوں کو ضرور یہ اجازت ہے کہ وہ قربانی کے دن کی رمی قربانی کی رات کے آخری حصہ میں کر سکتے ہیں جب کہ طاقتور لوگوں کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ جمرہ عقبہ کو رمی طلوع آفتاب کے بعد کریں، جیسا کہ قبل ازیں بیان کیا جا چکا ہے تاکہ اس مسئلہ سے متعلق تمام احادیث میں تطبیق دی جا سکے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے