ان ایام میں جب ہم عرفات سے مزدلفہ کوچ کرتے ہیں تو بے پناہ رش ہو جاتا ہے کہ مزدلفہ پہنچ کر رش کی شدت کی وجہ سے حاجی کے لیے یہاں شب بسر کرنا ممکن نہیں ہوتا اور اس میں بے حد مشقت ہوتی ہے، تو کیا یہ جائز ہے کہ مزدلفہ میں رات بسر نہ کی جائے اور یہاں شب بسر نہ کرنے کی وجہ سے کیا حاجی پر کچھ لازم ہو گا؟ کیا مغرب و عشاء کی نمازیں اگر مزدلفہ میں ادا کی جائیں تو یہ وقوف اور شب باشی سے کفایت کر سکتی ہیں؟ یعنی مغرب و عشاء کی نمازیں مزدلفہ میں ادا کرنے کے فورا بعد منیٰ روانگی اختیار کی جائے تو اس طرح یہ وقوف صحیح ہو گا؟ امید ہے دلیل کے ساتھ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں گے۔
مزدلفہ میں شب بسر کرنا حج کے واجبات میں سے ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں شب بسر فرمائی، صبح کی نماز یہاں ادا فرمائی اور خوب روشنی ہونے تک یہاں مقیم رہے تھے اور آپ کا ارشاد ہے:
"مناسک حج کی تعلیم مجھ سے حاصل کرو۔"
جو حاجی یہاں مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر کے ادا کرنے کے بعد یہاں سے چل پڑے تو اس نے گویا اس واجب کو ادا ہی نہیں کیا اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کمزور لوگوں کو بھی رات کے آخری حصہ میں یہاں سے روانہ ہونے کی اجازت دی ہے۔
جو شخص مزدلفہ میں رات بسر نہ کر سکے تو اس ترک واجب کے کفارہ کے طور پر اس پر دم لازم ہے۔ اہل علم کا یہ اختلاف مشہور و معلوم ہے کہ مزدلفہ میں شب بسر کرنا رکن ہے یا واجب یا سنت، تو ان میں سے راجح ترین قول یہ ہے کہ یہ واجب ہے، جو شخص اسے ترک کر دے اس پر دم لازم ہے اور اس کا حج صحیح ہے۔ اکثر اہل علم کا یہی قول ہے ، ہاں البتہ صرف کمزور لوگوں کو یہ رخصت ہے کہ وہ آدھی رات کے بعد یہاں سے کوچ کر سکتے ہیں، طاقتور لوگ جن کے ساتھ کمزور نہ ہوں، ان کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ ساری رات مزدلفہ میں گزاریں، نماز فجر ادا کریں، نماز فجر کے بعداللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس سے دعا کرین اور جب دن خوب روشن ہو جائے تو پھر طلوع آفتاب سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے یہاں سے روانہ ہوں۔ جو کمزوور لوگ یہاں رات کے آخری حصہ میں پہنچیں تو ان کے لیے یہی کافی ہے کہ کچھ دیر یہاں رہیں اور پھر رخصت کو قبول کرتے ہوئے یہاں سے روانہ ہو جائیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب