مزدلفہ میں رات بسر کرنے کے لیے کیا ضابطہ ہے اور اگر شب بسر کرنا مشکل ہو اور حاجی یہاں سے گزرنے ہی پر اکتفاء کرے تو اس کے حج کے بارے میں کیا حکم ہے؟
حاجی کے لیے یہ واجب ہے کہ وہ آدھی رات تک کا وقت مزدلفہ میں گزارے اور اگر پوری رات یہاں بسر کرے، نماز فجر ادا کرے، نماز کے بعد ذکر و استغفار کرے اور پھر خوب روشنی کے بعد یہاں سے روانہ ہو تو یہ افضل و اکمل ہے۔ ہاں البتہ کمزور مردوں، عورتوں اور بوڑھوں کے لیے آدھی رات کے بعد یہاں سے روانگی جائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنےاہل خانہ کے کمزور افراد کو اس کی رخصت دے دی تھی لیکن آپ نے خود یہاں شب بسر فرمائی، نماز دجر ادا فرمائی، نماز کے بعد اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا اور تہلیل و استغفار پڑھا اور پھر خوب روشنی ہونے کے بعد منیٰ کی طرف روانہ ہوئے تھے۔ اور حجاج کرام کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی اسوہ حسنہ کے مطابق عمل کریں، البتہ کمزوروں کے لیے یہ ضرور رخصت ہے کہ وہ صبح سے پہلے بھی کوچ کر سکتے ہیں جیسا کہ قبل ازیں بیان کیا گیا ہے۔
جو شخص کسی شرعی عذر کے بغیر مزدلفہ میں شب بسر نہ کرے تو اس پر دم لازم ہے کیونکہ اس نے سنت کی خلاف ورزی کی اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ "جو شخص حج کے کسی واجب کو ترک کرے یا اسے بھول جائے تو اس کی جگہ خون بہائے۔"[1]
اور بلا شک و شبہ مزدلفہ میں شب بسر کرنننا حج کا ایک عظیم واجب ہے حتیٰ کہ بعض اہل علم نے اسے حج کا رکن قرار دیا ہے اور بعض نے اسے سنت کہا ہے جب کہ صحیح قول یہ ہے کہ حج کے واجبات میں سے ایککک واجب ہے لہذا اس کے ترک کی وجہ سے دم بھی لازم ہے اور توبہ و استغفار بھی، جب کہ اسے کسی شرعی عذر کے بغیر جان بوجھ کر ترک کر دیا ہو۔
[1] موطا امام مالک، الحج، باب جامع الفدیۃ، حدیث: 257، 1/419/420