ایک شخص اعمال حج میں شریک ہوا لیکن اپنے کام کی نوعیت کی وجہ سے اس کے لیے دن کے وقت عرفہ میں وقوف ممکن نہ ہوا تو کیا اس کے لیے یہ جائز ہے کہ لوگوں کے یہاں سے رخصت ہو جانے کے بعد وہ رات کو وقوف کر لے؟ کتنا وقوف کافی ہو گا؟ اگر وہ اپنی گاڑی میں عرفہ سے گزر جائے تو کیا یہ بھی کافی ہے؟
وقوف عرفہ کا وقت نو تاریخ کی طلوع فجر سے قربانی کے دن کی طلوع فجر تک ہے، لہذا اگر کوئی حاجی نو تاریخ کو دن کے وقت وقوف نہ کر سکے تو وہ رات کو بھی وقوف کر سکتا ہے حتیٰ کہ اگر طلوع صبح سے تھوڑی دیر پہلے خواہ چند منٹ ہی وقوف کر لے تو یہ بھی کافی ہے۔ اسی طرح اگر عرفات سے خواہ گاڑی ہی پر گزر جائے تو یہ بھی کافی ہے، لیکن افضل یہ ہے کہ آدمی اس وقت حاضر ہو جب دیگر سب لوگوں نے وقوف کیا ہو، عرفہ کی شام ان کے ساتھ دعا میں شریک ہو، خشوع اور حضور قلب کا اظہار کرے، لوگوں کی طرح نزول رحمت اور حصول مغفرت کی امید کرے۔ اگر دن کو وقوف نہ کر سکے تو پھر رات کو کر لے، لیکن افضل یہ ہے کہ جس قدر ممکن ہو جلد وقوف کرے اور عرفہ میں آ جائے خواہ تھوڑی ہی مدت کے لیے سہی اور اپنے رب کے سامنے ہاتھ پھیلا دے اور نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ دعا کرے اور پھر لوگوں کے ساتھ مزدلفہ چلا جائے اور رات کے آخر تک مزدلفہ ہی میں رہے تاکہ اس کا حج مکمل ہو جائے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب