سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

عرفہ سے باہر وقوف

  • 9122
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 542

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب کوئی حاجی حدود وقوف کے وقت عرفہ میں وقوف نہ کرے تو اس کا حج نہیں ہوتا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

(الحج عرفة‘ من ادرك عرفة (بليل) قبل ان يطلع الفجر  فقد ادرك الحج) (سنن النسائي‘ مناسك الحج‘ باب فرض الوقوف برعفة‘ ح: 3019 والسنن الكبري للبيهقي : 5/173 واللفظ له)

"حج عرفہ ہے، جو شخص رات کو طلوع فجر سے پہلے پہلے عرفہ میں آ جائے تو یقینا اس نے حج کو پا لیا۔"


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وقوف کا وقت، عرفہ کے دن کے زوال کے بعد سے لے کر قربانی کی رات کی طلوع فجر تک ہے اور اس پر تمام اہل علم کا اجماع ہے۔

زوال سے ما قبل کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے اکثر کی یہ رائے ہے کہ اگر زوال کے بببعد اور رات   کو وقوف نہ کرے تو قبل از زوال کاوقوف کفایت نہیں کرے گا۔ جو شخص زوال کے بعد دن کو یا رات کو وقوف کرے تو اس کا یہ وقوف صحیح ہے۔ افضل یہ ہے کہ دن کے وقت ظہر اور عصر کی نمازیں جمع تقدیم کی صورت میں ادا کر کے غروب آفتاب تک وقوف کیا جائے۔ دن کے وقت وقوف کرنے والے کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ غروب آفتاب سے پہلے عرفہ سے واپس لوٹے اور اگر کوئی ایسا کرے تو اکثر اہل علم کے نزدیک اس پر دم لازم ہو گا کیونکہ اس نے ایک واجب کو ترک کر دیا اور وہ یہ کہ دن کو وقوف کرنے والے کے لیے یہ واجب ہے کہ وہ دن رات کے وقوف کو جمع کرے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ