سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

طواف وغیرہ کا ایصال ثواب

  • 9100
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 890

سوال

طواف وغیرہ کا ایصال ثواب
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں مکہ مکرمہ ہی میں تھی کہ مجھے ایک عزیزہ کی وفات کی خبر پہنچی تو میں نے اس کی طرف سے نیت کر کے طواف کیا تو کیا یہ جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہاں یہ جائز ہے کہ آپ طواف کریں اور اس کا ثواب جس مسلمان کو چاہیں بخش دیں۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب میں یہی مشہور قول ہے کہ مسلمان جو بھی نیکی کرے اور اس کا ثواب جس زندہ یا مردہ مسلمان کو بخش دے تو وہ اسے نفع دیتا ہے خواہ یہ نیکی محض بدنی عمل ہو جیسے نماز و طواف یا محض مالی ہو مثلا صدقہ، یا مالی و بدنی ہو مثلا قربانی وغیرہ، لیکن معلوم ہونا چاہیے کہ انسان کے لیے افضل یہ ہے کہ تمام اعمال صالحہ کو اپنی طرف سے ادا کرے اور جس مسلمان کے لیے چاہے دعا کر دے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی رہنمائی فرمائی ہے جیسا کہ آپ کا ارشاد ہے:

(اذا مات الاسنان انقطع عنه عمله الا من ثلاثة: الا من صدقة جارية‘ او علم ينفع به‘ او والد صالح يدعو له) (صحيح مسلم‘ الوصية‘ باب ما يحلق الانسان من الثواب بعد وفاته‘ ح: 1631)

"جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے تمام اعمال اس سے منقطع ہو جاتے ہیں مگر یہ تین اعمال منقطع نہیں ہوتے (1) صدقہ جاریہ (2) منفعت بخش علم اور (3) نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے