میں جدہ کا باشندہ ہوں اور میں نے سات بار حج کیا ہے، لیکن طواف وداع نہیں کیا، کیونکہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جدہ کے باشندوں کے لیے طواف وداع نہیں ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ طواف وداع نہ کرنے کی وجہ سے کیا میرا حج صحیح ہے یا نہیں، رہنمائی فرمائیں، جزاکم اللہ خیرا؟
جدہ، طائف اور ان جیسے دیگر علاقوں کے باشندوں کے لیے بھی یہ واجب ہے کہ حج سے فراغت کے بعد طواف وداع کئے بغیر مکہ مکرمہ سے رخصت نہ ہوں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان عام ہے جس میں آپ نے تمام حاجیوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:
"کوئی اس تک کوچ نہ کرے جب تک وہ آخری وقت بیت اللہ میں نہ گزارے۔"
اور صحیحین میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"لوگوں کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ سفر سے قبل آخری لمحات بیت اللہ میں گزاریں۔ ہاں البتہ حائضہ عورت کے لیے رخصت ہے۔"
جو شخص طواف وداع ترک کر دے تو اس پر دم لازم ہے۔ دم اور اونٹ یا گائے کے ساتویں حصہ میں شرکت یا ایسی بکری جس کے سامنے کے دو دانت گر گئے ہوں یا بھیڑ کا بچہ مکہ میں ذبح کر کے فقراء میں تقسیم کرنا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ توبہ و استغفار کیا جائے اور یہ عزم صادق کہ آئندہ ایسا نہیں کیا جائے گا۔ حیض و نفاس والی عورتوں کے لیے یہ طواف واجب نہیں ہے۔ اسی طرح علماء کے صحیح قول کے مطابق عمرہ کرنے والے کے لیے بھی طواف وداع نہیں ہے۔جمہور اہل علم کا بھی یہی قول ہے جیسا کہ ابن عبدالبر نے، بہت سے دلائل کی بنا پر اجماع بیان کیا ہے۔ مثال جو لوگ حجۃ الوداع کے موقع پر عمرہ کر کے حلال ہو گئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ حکم نہیں دیا تھا کہ وہ مکہ سے سفر کرتے وقت طواف وداع کریں، اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ کے باشندوں کو آپ نے یہ حکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھروں ہی سے منیٰ اور پھر عرفہ چلے جائیں، انہیں بھی طواف وداع کا حکم نہیں دیا تھا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب