کیا یہ جائز ہے کہ جمرہ عقبہ کبریٰ کی رمی یا وقوف عرفہ سے قبل طواف افاضہ اور سعی کر لی جائے، رہنمائی فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر سے نوازے؟
حج کے طواف اور سعی کو رمی سے پہلے سر انجام دینا جائز ہے لیکن طواف حج کو عرفات سے پہلے یا قربانی کی نصف رات سے پہلے سررر انجام دینا جائز نہیں کیونکہ جب عرفات سے واپس لوٹے اور عید کی رات مزدلفہ سے واپس آئے تو پھر اس کے لیے یہ جائز ہے کہ قربانی کے رات کے نصف اخیر میں طواف اور سعی کرے، نیز قربانی کے دن رمی سے پہلے بھی طواف اور سعی کر سکتا ہے۔ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں نے رمی سے پہلے افاضہ کر لیا ہے تو آپ نے فرمایا:
"کوئی حرج نہیں۔"
لہذا جب عید کی صبح یا رات کے آخری حصہ میں مزدلفہ سے آئیں تو عورتوں اور ان جیسے کمزور لوگوں کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ پہلے طواف کر لیں تاکہ عورت کے ایام نہ شروع ہو جائیں،،، اسی طرح کمزور مردوں کے لیے بھی جائز ہے کہ وہ پہلے طواف کر لیں اور پھر رمی کر لیں، اس میں کوئی حرج نہیں لیکن افضل یہ ہے کہ پہلے رمی کی جائے، پھر ہدی کو نحر کیا جائے، اگر ہدی موجود ہو، پھر بالوں کو منڈوا یا کٹوا دیا جائے لیکن منڈوانا افضل ہے، پھر آخری طواف کیا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا تھا کہ عید کے دن جمرہ کو رمی کی،[1] پھر خوشبو استعمال فرمائی، پھر سواری کے ذریعہ بیت اللہ تشریف لے گئے اور طواف فرمایا لیکن اگر کوئی شخص ان میں سے بعض اعمال کو بعغ دیگر سے پہلے کر لے مثلا رمی سے پہلے نحر کر لے یا قربانی سے پہلے بال منڈا لے یا رمی سے پہلے بال منڈا لے یا رمی سے پہلے طواف کر لے یا قربانی سے پہلے طواف یا بال منڈانے سے پہلے طواف کر لے تو الحمدللہ یہ تمام صورتیں جائز ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب تقدیم و تاخیر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
"کوئی حرج نہیں، کوئی حرج نہیں۔"
[1] صحیح مسلم، الحج، باب حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث:1218