السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کفار کے ممالک کی طرف سفر کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے اور اگر سفر سیاحت کے لیے ہو تو پھر کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کفار کے ممالک کی طرف تین شرطوں کے بغیر سفر جائز نہیں ہے اور وہ تین شرطیں حسب ذیل ہیں: (۱)انسان کو اس قدر علم ہو، جس سے وہ کفار کے شبہات کا جواب دے سکے۔ (۲)اس کے دین کا پہلو اس قدر غالب ہو، جو اسے شہوات سے روک سکے۔ (۳)اسے سفر کی کوئی واقعی ضرورت ہو۔
اگر یہ شرطیں موجود نہ ہوں تو پھر کفار کے ممالک کی طرف سفر کرنا جائز نہیں کیونکہ اس میں فتنہ یا خوف فتنہ ہے، نیز اس میں مال کا ضیاع بھی ہے کہ اس طرح کے سفروں پر بہت سا مال خرچ کرنا پڑتا پڑتاہے۔ اگر علاج یا ایسی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اجنبی ممالک جانے کی ضرورت درپیش ہو جس کا اپنے ملک میں حاصل کرنا ممکن نہ ہو اس صورت میں بھی جیسا کہ ہم نے ذکر کیا اس کے پاس علم اور دین ہو تو سفرکرنے میں کوئی حرج نہیں۔ جہاں تک کفار کے ممالک میں سیر وسیاحت کے لیے جانے کا تعلق ہے تو اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ سیر وسیاحت کے لیے اسلامی ممالک کی طرف جانا چاہیے جہاں کے باشندے شعائر اسلامیہ کی پابندی کرتے ہوں۔ ہمارے اسلامی ملکوں میں … بحمد للہ… اب تفریحی مقامات بن چکے ہیں، چھٹیوں کے دور ان ان تفریحی مقامات کی طرف جاکر چھٹی گذاری جاسکتی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب