میں نے حج کرتے ہوئے آدھی رات سے قبل جمرہ کبریٰ کو رمی کر لی اور پھر طواف افاضہ کے لیے فورا حرم کی طرف چلا گیا اور طواف کرتے ہوئے میرا وضو ٹوٹ گیا لیکن رش کی وجہ سے میں نے اسی طرح طواف مکمل کر لیا اور طواف کی دو رکعتیں بھی نہ پڑھ سکا، پھر میں نے حدود حرم اور منیٰ کو چھوڑ دیا اور پھر نماز مغرب کے بعد ہی واپس لوٹا تو سوال یہ ہے کہ اس سے مناسک حج میں کوئی خلل آیا یا نہیں، یاد رہے میرا یہ حج مفرد تھا؟
آدھی رات سے قبل رمی جمرہ جائز نہیں کیونکہ رمی جمرہ کا اول وقت قربانی (دس ذوالحجہ) کی آدھی رات کے بعد ہے، اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے لہذا آدھی رات سے پہلے رمی کرنا جائز نہیں ہے۔
ثانیا: طواف اگر آدھی رات سے پہلے کیا یا بعد میں وہ بھی صحیح نہیں کیونکہ یہ طواف طہارت کے بغیر کیا گیا ہے جیسا کہ اس نے خود بیان کیا ہے کہ طواف کے دوران اس کا وضو ٹوٹ گیا تھا، لہذا صحیح قول کے مطابق اس نے گویا طواف کیا ہی نہیں لہذا اس شخص پر واجب ہے کہ وہ دوبارہ رمی اور طواف کرے، بغیر وضو کیا ہوا یہ طواف صحیح نہیں ہے اور اگر رمی کے اوقات گزر جانے کے بعد اسے یہ یاد آیا تو پھر اس پر دم لازم ہے کیونکہ اس نے در حقیقت رمی کی ہی نہیں، لہذا ترک رمی کی وجہ سے اس کے دم ذمہ ہے، اسی طرح طواف بھی لازم ہے خواہ کسی وقت بھی کر لے خواہ ذوالحجہ کے آخر میں یا محرم میں کع لے تاکہ حج مکمل ہو جائے، ترک رمی کی وجہ سے جانور کو مکہ مکرمہ ہی میں ذبح کر کے حرم کے فقراء میں تقسیم کرنا ہو گا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب