میں نے بعض طواف کرنے والوں کو دیکھا ہے کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دینے کے لیے اپنی عورتوں کو آگے دھکیل رہے تھے تو ان میں سے کون سا عمل افضل ہے حجراسود کو بوسہ دینا یا مردوں کے ہجوم سے دور رہنا؟
اگر سائل نے یہ عجیب صورت حال دیکھی ہے تو میں نے اس سے بھی زیادہ تعجب ابگیر صورت دیکھی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ فرض نماز کے سلام سے بھی پہلے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تاکہ دوڑ کر حجراسود کو بوسہ دیں اور اس طرح وہ اپنی فرض نماز کو ضائع کر بیٹھتے ہیں، جو ارکان اسلام میں سے ایک ہے، اس عمل کی وجہ سے جو واجب نہیں ہے بلکہ مشروع بھی نہیں ہے الا یہ کہ طواف میں حجرا اسود کو بوسہ دے، لہذا لوگوں کا یہ عمل جہالت پر مبنی ہے، جس کی وجہ سے انسان افسوس ہی کر سکتا ہے کیونکہ حجر اسود کو بوسہ دینا اور رکن یمانی کو چھونا صرف طواف ہی میں سنت ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ طواف کے علاوہ بھی حجرا اسود کو بوسہ دینا سنت ہو اور اگر کسی شخص کو علم ہو کہ یہ سنت ہے اور وہ اس کی دلیل سے ہمیں بھی آگاہ کر دے تو اللہ تعالیٰ اسے جزائے خیر سے نوازے گا۔
ہمارے علم کے مطابق حجر اسود کو بوسہ دینا طواف کی سنتوں میں سے ایک ہے اور پھر یہ مسنون بھی اس صورت میں ہے کہ اس سے کسی طواف کرنے والے یا کسی دوسرے انسان کو کوئی اذیت نہ پہنچے اور اگر اس سے کسی کو اذیت پہنچے تو پھر ہمیں وہ دوسرا طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے مقرر فرمایا ہے اور وہ یہ کہ انسان حجر اسود کو ہاتھ سے چھو لے اور اپنے ہاتھ کو بوسہ دے لے[1] اور اگر اس میں بھی کوئی اذیت یا مشقت ہو تو پھر ہمیں وہ تیسرا طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم فرمایا ہے اور وہ یہ کہ ہم دونوں ہاتھوں سے نہیں بلکہ صرف اپنے دائیں ہاتھ سے حجراسود کی طرف اشارہ کر دیں اور اس صورت میں اپنے ہاتھ کو بوسہ نہ دیں،[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے یہی ثابت ہے۔
سائل نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ کچھ لوگ خود اپنے ہاتھوں سے اپنی خواتین کو حجر اسود کے بوسہ کے لیے آگے دھکیلتے ہیں تو یہ بے حد غیر محتاط اور نامناسب ہے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ عورت حاملہ ہو یا بڑھیا ہو یا ایسی دوشیزہ ہو جسے اس دھکم پیل کی استطاعت نہ ہو یا اس نے بچے کو اٹھا رکھا ہو۔ عورتوں کو دھکیلنا انتہائی منکر بات ہے کیونکہ اس سے انہیں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، مردوں کو بھی اس سے تنگی اور بھیڑ کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ سب صورتیں حرمت یا کراہت سے خالی نہیں ہیں، لہذا مردوں کو چاہیے کہ وہ اس طرح نہ کریں، جب اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ میں گنجائش رکھی ہے تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اپنے آپ پر سختی نہیں کرنی چاہیے ورنہ اللہ تعالیٰ بھی سختی فرمائے گا۔
[1] صحیح بخاری، الحج، تقبیل الحجر، حدیث: 1610-1611 وصحیح مسلم، الحج، حدیث: 1268
[2] صحیح مسلم، الحج، باب جواز الطواف علی البعیر، حدیث: 1273-1274