سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

تحلل اول ثانی کے معنی

  • 9067
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 1488

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تحلل اول اور ثانی سے کیا مراد ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تحلل اول سے مراد یہ ہے کہ حاجی تین میں سے دو کام کرے یعنی رمی اور حلق یا تقصیر کرے یا رمی اور طواف کرے یا طواف و حلق یا تقصیر کرے تو یہ تحلل اول ہے۔ اور جب وہ تینوں کام ہی کر لے یعنی رمی، طواف اور سر کے بالوں کو منڈوا یا کٹوا لے تو یہ تحلل ثانی ہے۔ جب آدمی ان تینوں میں سے کوئی دو کام کر لے تو وہ سلا ہوا کپڑا پہن سکتا ہے، خوشبو استعمال کر سکتا ہے اور بیوی سے جنسی تعلق کے سوا ہر وہ کام اس کے لیے حلال ہو جاتا ہے، جو احرام کی وجہ سے حرام ہو گیا تھا۔ اور جب وہ تیسرا کام بھی سر انجام دے دے تو وہ مکمل طور پر حلال ہو جاتا ہے اور اس کے لیے جنسی عمل بھی جائز ہو جاتا ہے۔ بعض علماء کی یہ رائے ہے کہ جب آدمی عید کے دن رمی جمرہ کر لے تو اسے تحلل اول حاصل ہو جاتا ہے۔ یہ ایک جید (عمدہ) قول ہے، لہذا انسان ایسا کرے تو ان شاءاللہ کوئی حرج نہیں، لیکن افضل اور زیادہ محتاط بات یہ ہے کہ جلدی نہ کرے حتیٰ کہ اس کے بعد دوسرا عمل بھی کر لے یعنی بال منڈوا لے یا کٹوا لے یا رمی جمرہ کے بعد طواف کر لے کیونکہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا میں ہے اگرچہ اس کی سند محل نظر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(اذا رميتم وحلقتم فقد حل لكم الطيب والثياب وكل شئيء الا النساء) (مسند احمد: 6/143)

"جب تم رمی کر لو اور بال منڈوا لو تو تمہارے لیے سوائے عورتوں کے خوشبو، کپڑے (عام لباس) اور ہر چیز حلال ہے۔"

اس باب کی کچھ اور احادیث بھی ہیں جن سے یہی ثابت ہے اور پھر خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عید کے دن جمرہ کو رمی کی، ہدی کو نحر کیا اور بال منڈوا دئیے تھے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو خوشبو لگائی تھی، ظاہر نص سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے رمی، نحر اور حلق کے بعد خوشبو استعمال فرمائی تھی۔ لہذا افضل اور محتاط بات یہ ہے کہ تحلل اول اس وقت تک اختیار نہ کرے جب تک رمی، حلق یا تقصیر نہ کر لے اور اگر یہ ممکن ہو کہ رمی کے بعد اور بال منڈوانے سے پہلےہدی کو نحر کر لے تو یہ افضل بھی ہے اور اس طرح تمام احادیث پر عمل بھی ہو جاتا ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ