سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

طواف میں وکالت جائز نہیں

  • 9063
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 869

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری والدہ میرے والد کے ساتھ حج کے لیے گئیں اور ان کے ساتھ تین اور آدمیوں کی جماعت بھی تھی اور ہر آدمی کے ساتھ اس کی بیوی بھی تھی تاکہ سب مل کر فریضہ حج ادا کر سکیں، چنانچہ ان سب نے فریضہ حج ادا کیا لیکن طواف وداع کے وقت حرم حاجیوں سے بھرا ہوا تھا، لہذا میری والدہ کے ہمراہ عورتیں حرم میں داخل نہ ہو سکیں اور انہوں نے اپنے شوہروں کو وکیل بنا لیا لیکن میری والدہ نے نذر مانی کہ وہ خود طواف کرے گی اور پھر واقعی انہوں نے خود ہی طواف کیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ حرم کے اندر اس نذر کے بارے میں کیا حکم ہے؟ نیز کیا طواف وداع میں وکالت جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

طواف میں وکالت جائز نہں،خواہ طواف زیارت ہو یو وداع، لہذا جو شخص طواف ترک کر دے، اس کا حج مکمل نہیں، ہاں البتہ طواف وداع ترک کرنے کا کفارہ یہ ہے کہ مکہ میں ایک جانور ذبح کر کے حرم کے مسکینوں کو کھلا دیا جائے، طواف وداع حائضہ و نفساء سے ساقط ہو جاتا ہے جبکہ انہوں نے طواف زیارت کیا ہو، اس نذر کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ طواف واجب کے لیے نذر کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اسے تو خود شریعت نے واجب قرار دے رکھا ہے، ہاں البتہ اگر کوئی شخص ایسے طواف کی نذر مانتا ہے جو واجب نہیں ہے تو پھر اس نذر کو پورا کرنا لازم ہے کیونکہ وہ بھی نذر ماننے کی وجہ سے واجب ہو گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ثُمَّ ليَقضوا تَفَثَهُم وَليوفوا نُذورَ‌هُم وَليَطَّوَّفوا بِالبَيتِ العَتيقِ ﴿٢٩﴾... سورة الحج

"پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نزریں پوری کریں اور خانہ قدیم (یعنی بیت اللہ) کا طواف کریں۔"

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ