سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

رمی اور طواف وداع میں وکالت

  • 9062
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-28
  • مشاہدات : 737

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو دوسرے دن رمی جمرات کے لیے کسی کو اپنا وکیل مقرر کرے؟ اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو طواف وداع میں کسی کو وکیل مقرر کر کے خود اپنے ملک کے لیے سفر پر روانہ ہو جائے؟ کیا اس کے لیے یہ جائز ہے جبکہ وہ خود بھی جوان ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اولا: اگر موکل خود رمی کرنے سے عاجز ہو اور وکیل حاجی، مکلف اور قابل اعتماد ہو تو رمی میں وکالت صحیح ہے اور خواہ موکل جوان ہی کیوں نہ ہو، وکیل کو چاہیے کہ پہلے خود اپنی طرف سے رمی کرے اور پھر اپنے موکل کی طرف سے، اگر موکل خود رمی کرنے کی طاقت رکھتا ہو یا وکیل غیر مکلف یا غیر حاجی ہو تو پھر رمی میں وکالت صحیح نہیں اور اس پر دم لازم ہو گا۔

ثانیا: طواف وداع اور بیت اللہ کے کسی بھی دوسرے طواف میں وکالت صحیح نہیں ہے، لہذا جو شخص طواف وداع میں کسی کو وکیل بناتا اور خود طواف نہیں کرتا تو وہ گناہ گار ہوتا ہے اور اس کے ذمہ دم لازم آتا ہے، یعنی طواف وداع ترک کرنے کی وجہ سے اسے حرم میں جانور ذبھ کرنا ہو گا۔ موکل کو اس وقت تک سفر نہیں کرنا چاہیے جب تک وکیل رمی نہ ک لے اور رمی ختم ہونے کے بعد وہ خود طواف وداع نہ کر لے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

اولا: اگر موکل خود رمی کرنے سے عاجز ہو اور وکیل حاجی، مکلف اور قابل اعتماد ہو تو رمی میں وکالت صحیح ہے اور خواہ موکل جوان ہی کیوں نہ ہو، وکیل کو چاہیے کہ پہلے خود اپنی طرف سے رمی کرے اور پھر اپنے موکل کی طرف سے، اگر موکل خود رمی کرنے کی طاقت رکھتا ہو یا وکیل غیر مکلف یا غیر حاجی ہو تو پھر رمی میں وکالت صحیح نہیں اور اس پر دم لازم ہو گا۔

ثانیا: طواف وداع اور بیت اللہ کے کسی بھی دوسرے طواف میں وکالت صحیح نہیں ہے، لہذا جو شخص طواف وداع میں کسی کو وکیل بناتا اور خود طواف نہیں کرتا تو وہ گناہ گار ہوتا ہے اور اس کے ذمہ دم لازم آتا ہے، یعنی طواف وداع ترک کرنے کی وجہ سے اسے حرم میں جانور ذبھ کرنا ہو گا۔ موکل کو اس وقت تک سفر نہیں کرنا چاہیے جب تک وکیل رمی نہ ک لے اور رمی ختم ہونے کے بعد وہ خود طواف وداع نہ کر لے۔

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ