رمہ جمار میں کب وکالت جائز ہے؟ کیا کچھ ایسے ایام بھی ہیں، جن میں وکالت جائز نہیں؟
تمام جمرات میں وکالت جائز ہے اس مریض کے لیے جو رمی کرنے سے عاجز ہو، اس حاملہ کے لیے جسے اپنے بارے میں خطرہ ہو، اس مرضعہ کے لیے جس کے بچوں کی حفاطت کے لیے کوئی نہ ہو، اور اس بوڑھے ،مرد و عورت کے لیے جو رمی کرنے سے عاجز ہوں، اسی طرح چھوٹے بچے اور بچی کی طرف سے ولی رمی کر سکتا ہے۔ وکیل اپنی طرف سے اور اپنے مؤکل کی طرف سے ہر جمرہ کے پاس ایک ہی وقت میں رمی کر سکتا ہے، وہ پہلے اپنی طرف سے رمی کرےاور ھر اپنے موکل کی طرف سے، الا یہ کہ وکیل کا نفل حج ہو تو پھر اس کے لیے یہ لازم نہیں کہ اپنی طرف سے پہلے رمی کرے، لیکن یاد رہے کہ رمی میں وکالت صرف حاجی ہی کر سکتا ہے، جو شخص حج نہ کر رہا ہو تو وہ رمی میں دوسرے کی وکالت بھی نہیں کر سکتا اور نہ اس کا کسی دوسرے کی طرف سے رمی کرنا جائز ہی ہو گا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب