سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(112) کیا کسی شخص کو ’ شہید‘ کہنا جائز ہے؟

  • 904
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3204

سوال

(112) کیا کسی شخص کو ’ شہید‘ کہنا جائز ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کسی کو شہید کہنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

کسی کو شہید کہنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:

۱۔     اسے وصف کے ساتھ مقید کیا جائے، مثلاً: یوں کہا جائے کہ ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے رستے میں مارا جائے وہ شہید ہے،یا جو اپنے مال کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شہید ہے،یا جو طاعون کے مرض سے فوت ہو جائے وہ شہید ہے، تو اس طرح کہنا جائز ہے جیسا کہ نصوص میں آیا ہے کیونکہ آپ تو اس بات کی شہادت دے رہے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔ ہمارے یہ کہنے کہ ’’یہ جائز ہے‘‘ کا مطلب یہ کہ ایسا کہنا ممنوع نہیں ہے حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر کی تصدیق کرتے ہوئے ایسی شہادت دینا تو واجب ہے۔

۲۔     شہادت کو کسی معین شخص کے ساتھ مقید کیا جائے، مثلاً: آپ کسی معین شخص کے بارے میں یہ کہیں کہ وہ شہید ہے تو یہ جائز نہیں، سوائے اس کے جس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شہادت دی ہو یا جس کی شہادت پر امت کا اتفاق ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ  نے اس بات کا عنوان اس طرح قائم کیا ہے: (باب لا یقال فلان شہید) ’’یہ نہ کہا جائے کہ فلاں شہید ہے‘‘ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے اس بات کے تحت لکھا ہے، یعنی کسی معین شخص کے بارے میں قطعی طور پر یہ نہ کہا جائے الا یہ کہ وحی کے ذریعے سے ایسا معلوم ہوجائے۔ انہوں نے گویا اپنے اس قول سے حدیث عمر رضی اللہ عنہ  کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آپ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تھاکہ تم اپنے غزوات میں کہتے ہو کہ فلاں شہید ہے، فلاں شہادت کی موت مرا ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ سواری سے گر کر مرا ہو، لہٰذا تم اس طرح نہ کہا کرو بلکہ یہ کہا کرو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں فوت ہو یا قتل ہو وہ شہید ہے۔‘‘ یہ حدیث حسن ہے۔ امام احمد اور سعید بن منصور وغیرہ نے بطریق محمد بن سیرین اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ  سے روایت کیا ہے۔(فتح الباری: ۱۱۰/۶)

کسی چیز کی شہادت اس کے بارے میں علم ہی کی بنیاد پر ہو سکتی ہے اور کسی انسان کے شہید ہونے کی شرط یہ ہے کہ اس نے اس لیے لڑائی لڑی ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کے کلمے کو سربلندی حاصل ہواجائے دراصل اس کا تعلق باطنی نیت سے ہے جسے معلوم کرنے کی کوئی کسوٹی نہیں۔ اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

«مَثَلُ الْمُجَاهِدِ فِیْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَنْ يُجَاهِدُ فِی سَبِيْلِهِ»(صحیح البخاري، الجهاد والسير، باب افضل الناس مومن مجاهد بنفسه وماله فی سبيل اللہ، ح:۲۷۸۷)

’’اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال یہ ہے… اور یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے راستے میں جہاد کرنے والا کون ہے؟‘‘

اور فرمایا:

«وَالَّذِی نَفْسِی بِيَدِهِ لَا يُکْلَمُ أَحَدٌ فِی سَبِيْلِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ أَعْلَمُ بِمَنْ يُکْلَمُ فِی سَبِيْلِهِ  إِلَّا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وکلمه يثعب دما، َاللَّوْنُ لَوْنُ الدَّمِ وَالرِّيحُ رِيحُ الْمِسْکِ»(صحيح البخاري، الجهاد والسير، باب من يجرح فی سبيل الله عزوجل، ح:۲۸۰۳)

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جسے اللہ تعالیٰ کے رستے میں زخم لگے… اور یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے رستے میں کسے زخم لگتا ہے… وہ روز قیامت اس طرح آئے گا کہ اس کے زخم سے خون رس رہاہوگا اس کا رنگ خون کا رنگ ہو گا اور خوشبو کستوری کی خوشبو ہوگی۔‘‘

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ان دونوں حدیثوں کو امام بخاری رحمہ اللہ  نے روایت فرمایا ہے۔ جو شخص بظاہر نیک ہو، اس کے لیے ہم یہ امید کر سکتے ہیں، مگر اس کے بارے میں یہ گواہی دے سکتے ہیں نہ اس کے بارے میں کوئی بدگمانی کر سکتے ہیں۔ امید ان دونوں مرتبوں کے درمیان کا ایک مرتبہ ہے۔ ہاں! ایسے شخص کے بارے میں دنیا میں معاملہ احکام شہداء کے مطابق کیا جائے گا، یعنی اگر وہ اللہ تعالیٰ کے رستے میں جہاد کرتے ہوئے قتل ہواہو تو اسے اس کے خون آلود کپڑوں میں دفن کیا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی جائے گی اور اگر اس کا تعلق دوسرے شہداء سے ہو تو پھر اسے غسل اور کفن دیا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ بھی پڑھی جائے گی۔اگر کسی معین شخص کے بارے میں ہم یہ شہادت دیں کہ وہ شہید ہے تو اس شہادت سے یہ لازم آتا ہے کہ ہم ا س کے جنتی ہونے کی شہادت دے رہے ہیں اور یہ بات اہل سنت کے مذہب کے خلاف ہے کہ ہم کسی کے قطعی جنتی ہونے کی شہادت دیں شرعا ہمارے لئے اس کا جواز نہیں سوائے اس کے جس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصف بیان کر کے یا شخصی طور پر اس کا تعین فرما کر شہادت دی ہو۔ کچھ لوگوں نے ایسے شخص کے بارے میں شہادت دینے کو بھی جائز قرار دیا ہے جس کی تعریف پر امت کا اتفاق ہو۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  کا بھی یہی مذہب ہے۔اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ نص یا اتفاق امت کے بغیر کسی معین شخص کے شہید ہونے کی شہادت دینا جائز نہیں، البتہ جو شخص بظاہر نیک ہو تو اس کے لیے ایسی امید کی جا سکتی ہے جیساکہ قبل ازیں بیان کیا گیا ہے دراصل اس کی منقبت کے لیے یہی کافی ہے اوراس کی شہادت کا علم تو اس کے خالق ومالک سبحانہ و تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ183

محدث فتویٰ

تبصرے