سلے ہوئے لباس کی حد بندی کیا ہے؟ کیا آج کل استعمال ہونے والی شلواریں احرام کے نیچے استعمال کی جا سکتی ہیں؟
جس شخص نے حج یا عمرہ کا احرام باندھا ہو اس کے لیے شلوار وغیرہ یا کوئی اور سلا ہوا کپڑا پہننا جائز نہیں ہے، نہ سارے بدن پر اور نہ اوپر کے حصہ پر بنیان وغیرہ اور نہ نچلے حصہ پر شلوار وغیرہ پہننا جائز ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ پوچھا گیا کہ محرم کیا لباس پہنے تو آپ نے فرمایا:
"کہ وہ قمیصیں، عاممے، شلواریں، ٹوپیاں اور موزے نہ پہنے، اگر کسی کو جوتے نہ ملیں تو وہ موزے پہن لے اور انہیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لے۔"
اس سے سائل کو یقینا معلوم ہو گیا ہو گا کہ وہ کون سا سلا ہوا لباس ہے، جو محرم کے لیے استعمال کرنا ممنوع ہے۔
مذکورہ حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ سلے ہوئے لباس سے مراد وہ لباس ہے جو سارے بدن کی پیمائش کے مطابق سلا یا بنا گیا ہو جیسے کہ قمیص یا اوپر کے نصف حصہ کے لیے بنایاگیا ہو جیسے بنیان وغیرہ یا نچلے حصہ کے لیے مثلا شلوار وغیرہ اور اس کا بھی وہی حکم ہے جو صرف ہاتھ کے لیے بنایا گیا ہو مثلا دستانے یا پاؤں کے لیے بنایا گیا ہو مثلا موزے۔ ہاں البتہ جوتے نہ ہونے کی صورت میں موزے استعمال کرنے کی اجازت ہے اورصحیح قول کے مطابق موزوں کا کاٹنا بھی لازم نہیں ہے کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
"جسے جوتے نہ ملیں، وہ موزے پہن لے اور جسے تہبند نہ ملے ، وہ شلوار پہن لے۔"
تو اس حدیث میں موزوں کے کاٹنے کا ذکر نہیں ہے جس سے معلوم ہوا کہ انہیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹنا واجب نہیں ہے اور پہلی حدیث میں جو کاٹنے کا ذکر ہے تو وہ اس حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پیش نظر منسوخ ہے۔ یہ مسائل مرد کے حوالے سے ہیں، جہاں تک حج یا عمرے کا احرام باندھنے والی عورت کا تعلق ہے تو اس کے لیے شلوار اور موزے وغیرہ پہننا مطلقا جائز ہے لیکن اس کے لیے نقاب اور دستانوں کے استعمال کی ممانعت ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے [1]جیسا کہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ میں مذکور ہے لیکن اجنبی مردوں کے سامنے اسے اپنے چہرے اور ہاتھوں کو بے نقاب اور ستانوں کے سوا کسی اور چیز مثلا دوپٹے وغیرہ سے چھپا لینا چاہیے۔
[1] صحیح بخاری، جزاء الصید، باب ما ینھی من الطیب للمحرم والمحرمۃ، حدیث: 1838