السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآن مجید کاواسطہ دے کر حلف اٹھانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس سوال کا جواب قدرے تفصیل کے ساتھ دیا جائے گا۔ کسی چیز کی قسم کھانا اس بات کی دلیل ہے کہ قسم کھانے والے کے نزدیک اس چیز کی خاص عظمت ہے جس کی قسم کھائی جا رہی ہے، لہٰذا کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے کسی اسم یا صفات میں سے کسی صفت کے بغیر قسم کھائے، مثلاً: قسم کھانی یوں کھانی چاہیے کہ ’’اللہ کی قسم! ایسا میں ضرور کروں گا، رب کعبہ کی قسم! میں یہ کام ضرور کروں گا، اللہ کی عزت کی قسم! میں یہ معاملہ ضرور کروں گا۔‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی دیگر صفات کے ساتھ قسم کھائی جا سکتی ہے۔
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ کا کلام اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور وہ یعنی کلام باری تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کی بیک وقت ذاتی فعلی صفت ہے۔ اپنے اصل کے اعتبار سے کلام کی صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک اس صفت سے ہمیشہ موصوف رہی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موصوف رہے گی کیونکہ کلام تو کمال ہے اور اس اعتبار سے یہ اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات میں سے ہے، کیونکہ وہ ہمیشہ سے متکلم رہا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے متکلم رہے گا اور جس کا وہ ارادہ فرمائے اسے کرتا رہے گا اور اپنی مستقل حیثیت کے اعتبار سے کلام اللہ تعالیٰ کی فعلی صفات میں سے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس وقت کلام فرماتا ہے جب وہ چاہتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّما أَمرُهُ إِذا أَرادَ شَيـًٔا أَن يَقولَ لَهُ كُن فَيَكونُ ﴿٨٢﴾... سورة يس
’’اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کی انجام دہی کاارادہ کرتا ہے تو اس سے فرماتا ہے ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں قول کو ارادے کے ساتھ جوڑدیا گیا ہے، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام اس کے ارادہ و مشیت کے ساتھ جڑاہواہے۔ اس کے بارے میں اور بھی بہت سے نصوص موجود ہیں۔ جہاں تک کلام باری تعالیٰ کے انفرادی طور پر وقوع کا تعلق ہے، تو وہ اس کی حکمت کے تقاضے کے مطابق ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اس تفصیل سے ہمیں معلوم ہوا کہ ان لوگوں کا قول باطل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کاکلام ازلی ہے اور ممکن نہیں کہ وہ اس کی مشیت کے تابع ہو اور اس کے قائم بنفسہٖ ہونے کے بھی یہی معنی ہیں، لہٰذا وہ کوئی ایسا کلام نہیں ہے جسے وہ سن لے جس سے اللہ تعالیٰ کلام فرما رہا ہو۔‘‘ یہ قول باطل ہے کیونکہ درحقیقت ایسا کہنے والے نے اللہ تعالیٰ کے سنے جانے والے کلام کو مخلوق بنا کررکھ دیا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی ایک کتاب میں جو ’’تِسْعِیْنِیَّۃ‘‘ کے نام سے معروف ہے، اس قول کو نوے(۹۰) وجہ سے باطل قرار دیا ہے۔
جب یہ مصحف کلام اللہ پر مشتمل ہے اور کلام اللہ، اللہ تعالیٰ کی صفت ہے تو پھر قرآن مجید کی قسم کھانا جائز ہے، مثلاً: انسان یہ کہے کہ قرآن مجید کی قسم! اور اس سے اس کا مقصود کلام اللہ کی قسم کھانا ہو اس بارے میں فقہائے حنابلہj سے نصاصراحت موجود ہے کہ ایسی قسم کھانا جائز ہے۔ تاہم افضل یہ ہے کہ انسان ایسی قسم کھائے جس سے سامعین تشویش میں مبتلا نہ ہوں، مثلاً: اس طرح قسم کھائے کہ اللہ کی قسم! رب کعبہ کی قسم! اس ذات پاک کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یا اس طرح کی دوسری قسمیں کھائے جن کے سننے سے عام لوگوں کو کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی اور وہ تشویش میں مبتلا نہیں ہوتے، اورلوگوں سے ایسے انداز میں ہی گفتگو کرنا زیادہ بہتر ہے جو عرفا عام ہو اور جس سے انہیں اطمینان قلب نصیب ہوتا ہو۔ جب یہ بات طے ہوگئی کہ قسم اللہ تعالیٰ اور اس کے اسماء وصفات ہی کی کھائی جاتی ہے تو پھر کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ غیر اللہ کی قسم کھائے۔ نبی یا جبرئیل یا کعبہ یا مخلوقات میں سے کسی چیز کی بھی قسم کھانا جائز نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
«مَنْ کَانَ حَالِفًا فَلْيَحْلِفْ بِاللّٰهِ اَوْ لِيَصْمُتْ»(صحیح البخاري، الشهادات، باب کیف یستحلف؟ ح: ۲۶۷۹ و صحیح مسلم، الایمان، باب النهی عن الحلف بغیر الله، ح:۱۶۴۶)
’’جو شخص قسم کھانا چاہے، اسے چاہیے کہ وہ اللہ کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔‘‘
بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا ہے:
«مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللّٰهِ فَقَدْ کَفَرَ اَوْ اَشْرَکَ»(جامع الترمذي، النذور والایمان، باب ماجاء فی کراھیةا لحلف بغیر الله ، ح:۱۵۳۵)
’’جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی، اس نے کفر یا شرک کیا۔‘‘
لہٰذا اگر کوئی شخص کسی کو نبی کی یا نبی کی زندگی کی یا کسی اور انسان کی زندگی کی قسم کھاتے ہوئے سنے، تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اس حرکت سے منع کرے اور اسے یہ بتائے کہ اس کی قسم کھانا حرام ہے، جائز نہیں، اسے حکمت اور نرمی وشفقت کے ساتھ یہ بات سمجھا دے۔ مقصود اس کی خیر خواہی اور اسے اس حرام کام سے دور رکھنا ہو۔ بعض لوگوں کی عادت یہ ہے کہ جب انہیں نیکی کے کسی کام کا حکم دیا جائے اور برائی سے منع کیا جائے تو وہ غیرت میں مبتلا اور ناراض ہو جاتے ہیں، ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے اور رگیں پھول جاتی ہیں۔ ایسا شخص بسا اوقات یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ اسے محض انتقام کے طور پر منع کیا جا رہا ہے، لہٰذا اس کے دل میں شیطان غلط باتیں ڈال کر انہیں بھڑکانے کی کوشش کرتاہے۔ اگر لوگوں سے ان کے مراتب کے مطابق سلوک کیا جائے اور انہیں اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف حکمت اور محبت وشفقت سے دعوت دی جائے تو اس بات کا قوی امکان پایا جاتا ہے کہ وہ آپ کی بات کو توجہ سے سن کر اسے قبول کر لیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
«اِنَّ اللّٰهَ يُعْطِی عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِی عَلَی الْعُنْفِ»(صحیح مسلم، البر والصلة، باب فضل الرفق، ح:۲۵۹۳)
’’بے شک اللہ تعالی نرمی پروہ کچھ عطا فرما دیتا ہے جو سختی پر عطا نہیں فرماتا۔‘‘
بہت سے لوگوں کو اس بدو کا واقعہ یقینا معلوم ہوگا جس نے لوگوں کی موجودگی میں مسجد نبوی میں پیشاب کر دیا تھا۔ لوگوں نے یہ دیکھا تو چیخ پڑے اور اسے ڈانٹنے لگے، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع فرما دیا۔ جب وہ بدو پیشاب کرچکااورحاجت سے فارغ ہوگیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور بے حد پیار اور شفقت سے فرمایا:
«إِنَّ هٰذِهِ الْمَسَاجِد لا يصلح فيها شیء من الأذی أوالقذر،انماهی للتکبير والتسبيح وقراء ة القرآنَِ»(صحیح مسلم، الطهارة، باب وجوب غسل البول وغیره من النجاسات… ح:۲۸۵)
’’ان مسجدوں میں بول و براز کرنا درست نہیں ہے، یہ تو صرف اللہ عزوجل کی تکبیر وتہلیل اور ذکر وتسبیح،اور نماز کی ادائیگی اور قرآن مجید کی تلاوت کے لیے ہیں۔‘‘
پھر آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ پیشاب پر پانی کا ایک ڈول بہا دیں، اس سے خرابی اور ناپاکی کاازالہ ہوگیااور جگہ پاک ہوگئی اور جاہل بدو کو سمجھانے کا مقصود بھی حاصل ہوگیا۔ ہمیں بھی چاہیے کہ بندگان الٰہی کو اللہ کے دین کی دعوت دیتے وقت اسی اسوئہ حسنہ کو پیش نظر رکھیں اور دعوت دین کے لیے ایسے اسلوب کو اختیار کریں جس سے حق بات لوگوں کے دلوں میں اثر کر جائے اور انہیں حق قبول کرنے اور اپنی اصلاح کرنے کی توفیق میسر آجائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب