حالت احرام میں جرابوں اور دستانوں کے استعمال کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور اس کی کیا دلیل ہے؟
مرد کے لیے حالت احرام میں جوابوں اور موزوں کا استعمال جائز نہیں ہے، الا یہ کہ اس کے پاس جوتے نہ ہوں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس شخص کے پاس جوتے نہ ہوں، وہ موزے پہن لے اور جس کے پاس تہبند نہ ہو وہ شلوار پہن لے۔"
ہاں البتہ عورت کے لیے حالت احرام میں بھی موزے اور جرابیں میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس کا سارا بدن پر وہ ہے اور موزوں اور جرابوں کا استعمال اس کے لیے ستر پوشی کا موجب ہے اور اگر عورت اپنے کپڑوں کو اس قدر نیچے لٹکائے کہ جس سے اس کے پاؤں چھپ جائیں تو یہ بھی نماز اور غیر نماز دونوں حالتوں میں موزوں اور جرابوں کے بجائے کافی ہے۔ مرد اور عورت دونوں ہی کے لیے حالت احرام میں دستانوں کا استعمال جائز نہیں ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم عورت کے بارے میں فرمایا ہے:
"محرمہ عورت نقاب استعمال نہ کرے اور نہ دستانے پہنے۔"
جب عورت کے لیے دستانوں کا استعمال حالت احرام میں حرام ہے تو مرد کے لیے یہ بالاولیٰ حرام ہو گا، اسی وجہ سے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس شخص کے بارے میں فرمایا تھا، جو حالت احرام میں فوت ہو گیا تھا:
"اسے پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ غسل دو، احرام کی دونوں چادروں میں کفن دو، اسے خوشبو نہ لگاؤ اور نہ اس کے سر اور چہرے کو ڈھانپو کیونکہ اسے روز قیامت لبیک کہتے ہوئے اٹھایا جائے گا۔"
عورت کو چاہیے کہ وہ نقاب کے بجائے مردوں کی موجودگی میں اپنے چہرے کو دوپٹے سے چھپا لے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
"قافلے گزرتے تھے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حالت احرام میں تھیں، جب قافلے ہمارے قریب آتے تو ہم سر سے دوپٹے کھینچ کر چہرے کو چھپا لیتیں اور جب وہ گزر جاتے تو ہم پھر چہرے کو ننگا کر لیا کرتی تھیں۔"
دارقطنی میں یہ روایت اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب