سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

حالت احرام میں جوابوں اور دستانوں کا استعمال

  • 9021
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1137

سوال

حالت احرام میں جوابوں اور دستانوں کا استعمال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حالت احرام میں جرابوں اور دستانوں کے استعمال کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور اس کی کیا دلیل ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مرد کے لیے حالت احرام میں جوابوں اور موزوں کا استعمال جائز نہیں ہے، الا یہ کہ اس کے پاس جوتے نہ ہوں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(من لم يجد نعلين فليلبس خفين‘ ومن لم يجد ازارا فليلبس سراويل) (صحيح البخاري‘ جزاء الصيد‘ باب لبس الخفين...الخ‘ ح: 1841 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب ما يباح للمحوم بحج او عمرة...الخ‘ ح: 1179)

"جس شخص کے پاس جوتے نہ ہوں، وہ موزے پہن لے اور جس کے پاس تہبند نہ ہو وہ شلوار پہن لے۔"

ہاں البتہ عورت کے لیے حالت احرام میں بھی موزے اور جرابیں میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس کا سارا بدن پر وہ ہے اور موزوں اور جرابوں کا استعمال اس کے لیے ستر پوشی کا موجب ہے اور اگر عورت اپنے کپڑوں کو اس قدر نیچے لٹکائے کہ جس سے اس کے پاؤں چھپ جائیں تو یہ بھی نماز اور غیر نماز دونوں حالتوں میں موزوں اور جرابوں کے بجائے کافی ہے۔ مرد اور عورت دونوں ہی کے لیے حالت احرام میں دستانوں کا استعمال جائز نہیں ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم عورت کے بارے میں فرمایا ہے:

(لا تسنتقب المحرمة ولا تلبس القفازين) (صحيح البخاري‘ جزاء الصيد‘ باب ما ينهي من الطيب ...الخ‘ ح: 1838)

"محرمہ عورت نقاب استعمال نہ کرے اور نہ دستانے پہنے۔"

جب عورت کے لیے دستانوں کا استعمال حالت احرام میں حرام ہے تو مرد کے لیے یہ بالاولیٰ حرام ہو گا، اسی وجہ سے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس شخص کے بارے میں فرمایا تھا، جو حالت احرام میں فوت ہو گیا تھا:

(اغسلوه بماء وسدر‘ وكفنوه في ثوبيه‘ (ولا تهنطوه) ولا تخمروا راسه ولا وجهه فانه يبعث يوم القيامة ملبيا) (صحيح البخاري‘ جزاء الصيد‘ باب المحرم يموت بعرفة...الخ‘ ح: 1849 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب ما يفعل بالمحرم اذا مات‘ ح: 1206 واللفظ لمسلم)

"اسے پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ غسل دو، احرام کی دونوں چادروں میں کفن دو، اسے خوشبو نہ لگاؤ اور نہ اس کے سر اور چہرے کو ڈھانپو کیونکہ اسے روز قیامت لبیک کہتے ہوئے اٹھایا جائے گا۔"

عورت کو چاہیے کہ وہ نقاب کے بجائے مردوں کی موجودگی میں اپنے چہرے کو دوپٹے سے چھپا لے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

(كان الركبان يمرون بنا ونحن مع رسول الله صلي الله عليه وسلم محرمات فاذا حاذوا بنا سدلت احدانا جلبابها من راسها علي وجهها‘ فاذا جاوزونا كشفناه) (سنن ابي داود‘ المناسك‘ باب في المحرمة تغطي وجهها‘ ح: 1833 وسنن ابن ماجه: 2935)

"قافلے گزرتے تھے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حالت احرام میں تھیں، جب قافلے ہمارے قریب آتے تو ہم سر سے دوپٹے کھینچ کر چہرے کو چھپا لیتیں اور جب وہ گزر جاتے تو ہم پھر چہرے کو ننگا کر لیا کرتی تھیں۔"

دارقطنی میں یہ روایت اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے