سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(83) قبروں سے تبرک اور ان کا طواف حرام ہے

  • 900
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1578

سوال

(83) قبروں سے تبرک اور ان کا طواف حرام ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قبروں سے تبرک حاصل کرنے، طلب حاجت یا تقرب کے ارادے سے ان کے گرد طواف کرنے اور غیر اللہ کی قسم کھانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

قبروں سے تبرک حاصل کرنا حرام اور شرک کی ایک قسم ہے کیونکہ اس طرح ایک چیز سے ایسی تاثیر وابستہ کی جاتی ہے، جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں فرمائی۔ سلف صالحین بھی اس قسم کے کسی تبرک کے قائل نہ تھے، لہٰذا اس اعتبار سے یہ کام بدعت بھی ہے۔ تبرک حاصل کرنے والے کا اگر یہ عقیدہ ہو کہ نقصان سے بچانے اور نفع پہنچانے میں صاحب قبر کو کوئی تاثیر یا قدرت حاصل ہے تو یہ شرک اکبر ہوگا۔ جب وہ اسے جلب منفعت یا دفع مضرت کے لیے پکارے یا اس کی عبادت کرتے ہوئے اس کے سامنے رکوع یا سجدہ کرے یا حصول تقرب یا صاحب قبر کی تعظیم کے لیے وہاں جانور ذبح کرے تو یہ بھی شرک اکبر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَمَن يَدعُ مَعَ اللَّهِ إِلـهًا ءاخَرَ لا بُرهـنَ لَهُ بِهِ فَإِنَّما حِسابُهُ عِندَ رَبِّهِ إِنَّهُ لا يُفلِحُ الكـفِرونَ ﴿١١٧﴾... سورة المؤمنون

’’اور جو شخص اللہ کے ساتھ اور معبود کو پکارتا ہے جس کی اس کے پاس کوئی سند نہیں تو اس کا حساب اللہ ہی کے پاس ہے، بے شک کافر فلاح نہیں پائیں گے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿فَمَن كانَ يَرجوا لِقاءَ رَبِّهِ فَليَعمَل عَمَلًا صـلِحًا وَلا يُشرِك بِعِبادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا ﴿١١٠﴾... سورة الكهف

’’پس جو شخص اپنے پروردگار سے ملنے کی امید رکھے، اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔‘‘

یاد رہے جو شخص شرک اکبر کا ارتکاب کرے وہ کافر اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنمی ہے، اس پر جنت حرام ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّهُ مَن يُشرِك بِاللَّهِ فَقَد حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيهِ الجَنَّةَ وَمَأوىهُ النّارُ وَما لِلظّـلِمينَ مِن أَنصارٍ ﴿٧٢﴾... سورة المائدة

’’جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا، اللہ اس پر جنت  کو حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔‘‘

جہاں تک غیر اللہ کی قسم کھانے کا سوال ہے تو اگر قسم کھانے والے کا عقیدہ یہ ہو کہ جس کی وہ قسم کھا رہا ہے اس کا مقام و مرتبہ اس طرح ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا مقام و مرتبہ ہے، تو اس صورت میں غیر اللہ کی قسم کھانے والا شرک اکبر کا مرتکب قرارپائے گااگر اس کا یہ عقیدہ تو نہ ہو لیکن اس کے دل میں اس کی اس قدر تعظیم ہو، جو اسے اس کی قسم کھانے پر مجبور کرتی ہو تو وہ شرک اصغر کا مرتکب ہوگا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللّٰهِ فَقَدْ کَفَرَ اَوْ اَشْرَك»(جامع الترمذي، النذور والایمان، باب ماجاء فی ان من حلف بغیر اللہ فقد اشرك، ح:۱۵۳۵)

’’جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی، اس نے کفر یا شرک کیا۔‘‘

اس شخص کی تردید واجب ہے جو قبروں سے تبرک حاصل کرے یا قبر والوں کو پکارے یا غیر اللہ کی قسم کھائے۔ اس کے سامنے یہ واضح کر دیا جائے کہ اس کا یہ معتقد اسے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ہرگز نہ بچاسکے گی کہ ’’ہم نے یہ چیز اپنے بزرگوں سے اسی طرح حاصل کی ہے۔‘‘ کیونکہ یہ دلیل تو حضرات انبیاء علیہم السلام  کی تکذیب کرنے والے مشرک بھی پیش کرتے تھے (جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے):

﴿إِنّا وَجَدنا ءاباءَنا عَلى أُمَّةٍ وَإِنّا عَلى ءاثـرِهِم مُقتَدونَ ﴿٢٣... سورة الزخرف

’’ہم نے اپنے باپ وأجدادکو ایک راہ پر پایا ہے اور ہم قدم بقدم انہی کے پیچھے چلنے والے ہیں۔‘‘

تو اس کے جواب میں ان کے رسول نے ان سے فرمایا تھا:

﴿أَوَلَو جِئتُكُم بِأَهدى مِمّا وَجَدتُم عَلَيهِ ءاباءَكُم قالوا إِنّا بِما أُرسِلتُم بِهِ كـفِرونَ ﴿٢٤﴾... سورة الزخرف

’’اگرچہ میں تمہارے پاس اس سے زیادہ راستی کا طریقہ لایا ہوں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے؟ وہ کہنے لگے: یقینا تمہیں جس کے ساتھ بھیجا گیا ہے ہم تو اس کا انکار کرتے ہیں۔‘‘

(اس کے جواب میں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿فَانتَقَمنا مِنهُم فَانظُر كَيفَ كانَ عـقِبَةُ المُكَذِّبينَ ﴿٢٥﴾... سورة الزخرف

’’پس ہم نے ان سے انتقام لیا، سو دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا؟‘‘

کسی شخص کے لیے یہ بات حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے باطل موقف کے حق میں یہ دلیل دے کہ اس نے اپنے باپ دادا کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے یا یہ اس کی شرست میں داخل ہے۔ اگر ایسا شخص اس قسم کی کوئی ایسی دلیل دیتاہے تو اس کی یہ دلیل اللہ تعالیٰ کے حضور ایک بودی دلیل تصور ہوگی، جو اس کے قطعاً کام نہ آئے گی۔ اس طرح کی باتوں میں مبتلا لوگوں کو فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور انہیں حق کی پیروی کرنی چاہیے، خواہ وہ کہیں بھی ہو، کسی سے بھی ملے یا کسی وقت بھی ملے۔ حق قبول کرنے سے لوگوں کی عادتیں یا عوام کی ملامتیں رکاوٹ نہیں بننی چاہئیں کیونکہ سچا مومن وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے کسی ملامت گر کی ملامت کو خاطر میں نہ لائے اور کوئی رکاوٹ اسے دین سے دور نہ کر سکے۔

ہم سب کو اللہ تعالیٰ ہر وہ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس میں اس کی رضا  پوشیدہ ہو اور ہر اس کام سے محفوظ رکھے جو اس کی ناراضی اور سزا کا سبب بنے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ158

محدث فتویٰ

تبصرے