گزشتہ سال میں اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کے لیے جدہ گیا اور وہاں کچھ قیام کے بعد میں نے حج کی نیت کر کے میقات جدہ سے احرام باندھ لیا اور حج کے لیے مکہ چلا گیا تو ایک بھائی نے مجھے بتایا کہ میں نے چونکہ احرام کے بغیر میقات سے تجاوز کیا لہذا مجھے ایک جانور ذبح کرنا چاہیے۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟ جبکہ جدہ ملاقات کے لیے گیا تھا اور ریاض سے روانہ ہوتے وقت میری نیت حج کی نہ تھی۔ فتویٰ دیجئے جزاکم اللہ خیرا؟
اگر ریاض سے روانہ ہوتے وقت آپ کی نیت حج کی نہ تھی اور یہ نیت آپ نے جدہ میں کی تو پھر آپ کا جدہ سے احرام باندھنا صحیح ہے اور اس صورت میں کوئی فدیہ نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مواقیت کا تعین کرتے ہوئے فرمایا:
"یہ ان علاقوں کے باشندوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے بھی جو ان کے باشندے تو نہ ہوں لیکن یہاں سے گزریں اور ان کا حج اور عمرہ کا ارادہ ہو اور جو ان کے اندر ہوں تو وہ اپنی جگہ ہی سے احرام باندھیں حتیٰ کہ اہل مکہ، مکہ ہی سے احرام باندھیں۔"
اس حدیث کے حکم میں اہل جدہ، ام سلم، بحرہ اور ان جیسے وہ سب لوگ داخل ہیں کو حدود حرم سے باہر لیکن مواقیت کے اندر رہ رہے ہوں۔ یہ لوگ جب بھی حج یا عمرہ کا ارادہ کریں تو یہ اپنے گھروں ہی سے احرام باندھیں گے۔
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب