السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو مکہ مکرمہ میں کسی کام یا ملازمت کے لیے آیا ہو اور پھر اسے حج کرنے کی فرصت بھی حاصل ہو گئی تو کیا وہ اپنی جگہ ہی سے احرام باندھے یا حرم سے باہر حل میں جا کر احرام باندھے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب کوئی شخص مکہ مکرمہ میں آئے اور اس کی حج یا عمرہ کی نیت نہ ہو بلکہ وہ کسی ضرورت، کسی رشتہ دار کی ملاقات، کسی مریض کی عیادت یا تجارت وغیرہ کے لیے آیا ہو اور پھر اس کا حج یا عمرے کا ارادہ بن گیا ہو تو اسے چاہیے کہ حج کا احرام تو اپنی جگہ ہی سے باندھ لے خواہ وہ مکہ شہر کے اندر رہ رہا ہو یا مضافات میں۔ اور اگر اس کا عمرے کا ارادہ ہو تو پھر اسے احرام کے لیے حدود حرم سے باہر حل کی طرف نکلنا پڑے گا خواہ تنعیم چلا جائے، جعرانہ یا کسی اور جگہ کیونکہ عمرہ کے لیے سنت بلکہ واجب یہی ہے کہ وہ حل کی طرف جائے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا[1] جب انہوں نے عمرے کا ارادہ کیا کہ تنعیم جائیں اور آپ کے بھائی حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ آپ کے ہمراہ حدود حرم سے باہر حل یعنی تنعیم تک جائیں چنانچہ عمرے کا ارادہ کرنے والے کے لیے واجب یہی ہے لیکن حج کا ارادہ کرنے والے کو چاہیے کہ وہ ایک جگہ ہی سے احرام باندھ لے خواہ وہ حدود کے اندر ہو یا باہر جیسا کہ قبل ازیں بیان کیا جا چکا ہے۔
[1] صحیح بخاري، باب کیف تھل الحائض والنفساء، حدیث: 1556 وصحیح مسلم، الحج ، حدیث: 1211
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب