السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
غیر مسلموں کے جزیرۃ العرب میں بلانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
غیر مسلموں کے جزیرۃ العرب میں بلانے کی صورت میں مجھے یہ خدشہ ہے کہ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت لازم آئے گی کیونکہ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں فرمایا تھا:
«اَخْرِجُوا الْمُشْرِکِيْنَ مِنْ جَزِيْرَةِ الْعَرَبِ»(صحیح البخاري، الجهاد والسير، باب هل يستشفع الی اهل الذمة؟… ح:۳۰۵۳)
’’مشرکوں کو جزیرۃ العرب سے نکال دو۔‘‘
اسی طرح صحیح مسلم میں ہے کہ آپ نے فرمایا تھا:
«لَاُخْرِجَنَّ الْيَهُوْدَ وَالنَّصَارٰی مِنْ جَزِيْرَةِ الْعَرْبِ حَتّٰی لَا اَدَعَ اِلَّا مُسْلِمًا»(صحیح مسلم، الجهاد والسير، باب اخراج اليهود والنصاری من جزيرة العرب، ح: ۱۷۶۷)
’’میں یہود ونصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے ہرحال میں نکال کررہوں گا حتیٰ کہ میں یہاں مسلمان کے سوا کسی اورکو نہ چھوڑوں گا۔‘‘
لیکن بوقت ضرورت انہیں بلانا جب کوئی مسلمان اس ضرورت کو پورا نہ کر سکتا ہو جائز ہے بشرطیکہ انہیں مطلقاً اقامہ نہ دیا جائے۔ اگر انہیں بلانے کی صورت میں عقیدے یا اخلاق کے اعتبار سے دینی مفاسد پیدا ہوتے ہوں تو پھر انہیں بلانا حرام ہے کیونکہ ایک جائز کام کی صورت میں جب فساد لازم آتا ہو تو وہ حرام ہو جاتا ہے جیسا کہ یہ ایک مشہور ومعروف اصول ہے۔ ان کے بلائے جانے کی صورت میں جو مفاسد پیدا ہو سکتے ہیں، ان میں ان کے کفر سے محبت و رضا مندی بھی ہے، ان کے ساتھ اختلاط کی صورت میں دینی غیرت کا خاتمہ بھی ہے۔ مسلمانوں کا وجود ہی سراپا خیر ہے… بحمدللہ… اور یہی ہمارے لیے کافی ہے لہٰذاہمارے لئے مسلمانوں کااستقدام کا فی وشافی ہے اسی میں خیر وبھلائی ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے ہدایت وتوفیق کی دعا کرتے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب