السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا احرام کے لیے دو رکعتین شرط ہیں یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ دو رکعتیں احرام کے لیے شرط نہیں بلکہ ان کے مستحب ہونے کے بارے میں بھی علماء میں اختلاف ہے۔ جمہور نے اسے مستحب قرار دیا ہے کہ وضو کرے، دو رکعتیں پڑھے اور پھر تلبیہ پڑھے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد احرام باندھا تھا۔[1] یعنی آپ نے حجہ الوداع کے موقع پر پہلے نماز ظہر ادا فرمائی اور پھر احرام باندھا اور فرمایا:
(اتاني الليلة ات من ربي فقال: صل في هذا الوادي المبارك‘ وقل عمرة في حجه او عمرة وحجة) (صحيح البخاري‘ الحج‘ باب قول النبي صلي الله عليه وسلم العقيق واد مبارك‘ ح: 1534)
’’آج رات میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا (جبریل علیہ السلام) آیا اور اس نے کہا: کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھو اور کہو: عمرہ حج میں (داخل) ہے یا یہ کہا کہ کہو: حج اور عمرہ (ایک ہی احرام سے ادا کروں گا۔)‘‘
’’آج رات میرے پاس رب کی طرف سے ایک آنے والا (جبریل علیہ السلام) آیا اور اس نے کہا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھیں اور کہیں کہ عمرہ حج میں (داخل) ہے۔‘‘
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دو رکعت نماز پڑھنا مشروع ہے۔ جمہور اہل علم کا بھی یہی قول ہے۔
دیگر اہل علم کا یہ کہنا کہ یہ حدیث اس مسئلہ میں نص نہیں کیونکہ اس بات کا احتمال ہے کہ مذکورہ حدیث میں نماز سے مراد فرض نماز ہو، لہذا یہ حدیث احرام کی دو رکعتوں کے بارے میں نص نہیں ہے۔ فرض نماز کے بعد احرام باندھنا بھی اس بات کی دلیل نہیں کہ احرام کی دو مخصوص رکعتیں مشروع ہیں بلکہ اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر آسانی سے ممکن ہو تو حج یا عمرہ کا نماز کے بعد احرام باندھنا افضل ہے۔
[1] السنن الکبري: 33/5
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب