سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(407) نیت کا محل دل ہے اور حج میں۔۔۔

  • 8954
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1135

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا احرام کی نیت زبان سے الفاظ ادا کرنے سے ہوتی ہے؟ اور آدمی جب کسی دوسرے کی طرف سے حج کر رہا ہو تو کس طرح نیت کرے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نیت کا مقام دل ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے دل میں یہ ارادہ کرے کہ وہ فلاں شخص یا اپنے بھائی یا فلاں بن فلاں کی طرف سے حج کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی مستحب ہے کہ زبان سے یہ الفاظ ادا کرے کہ ’’اے اللہ! میں فلاں کی طرف سے حج کے لیے حاضر ہوں یا فلاں کی طرف سے (اپنے باپ کی طرف سے) یا فلاں بن فلاں کی طرف سے عمرہ کے لیے حاضر ہوں۔‘‘

تاکہ دل کے ارادے کی زبان کے ان الفاظ سے تاکید ہو جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ کے الفاظ زبان سے بھی ادا فرمائے تھے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کے پیش نظر نیت کے الفاظ کی زبان سے ادائیگی بھی صحیح ہے۔ حضرات صحابہ کرام نے بھی زبان سے حج کی نیت کے الفاظ کو ادا فرمایا تھا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی تعلیم دی تھی۔ حضرات صحابہ کرام ان الفاظ کو بلند آواز سے ادا فرمایا کرتے تھے، لہذا سنت یہی ہے اور اگر زبان سے الفاظ ادا نہ کرے اور نیت ہی پر اکتفاء کرےتو یہ بھی کافی ہے۔ حج بدل کے تمام اعمال کو بھی اسی طرح ادا کیا جائے جس طرح انسان اپنے حج کے اعمال ادا کرتا ہے یعنی فلاں بن فلاں کے ذکر کے بغیر مطلقا تلبیہ کہے ہاں البتہ اگر نیت کرتے وقت ایک بار تلبیہ میں اس شخص کا تعین کرے جس کی طرف سے حج کر رہا ہو تو یہ افضل ہے اور پھر تلبیہ اسی طرح کہے جس طرح حج اور عمرہ کرنے والے لوگ کہتے ہیں یعنی: ’’حاضر ہوں میں اے اللہ! حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔ بے شک تمام تر تعریف اور انعام (و احسان) تیرا ہی ہے اور بادشاہت بھی تیری ہی ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ حاضر ہوں میں اے اللہ! میں حاضر ہوں، حاضر ہوں اے معبود (حقیقی حاضر ہوں)‘‘

یعنی مقصد یہ ہے کہ اسی طرح لبیک کہے جس طرح وہ اپنی طرف سے لبیک کہتا ہے اور کسی کا نام نہ لے، ہاں البتہ صرف ابتداء میں ایک دفعہ کہہ دے کہ ’’فلاں کی طرف سے حج کے لیے، یا فلاں کی طرف سے عمرہ کے لیے یا فلاں کی طرف سے عمرہ اور حج کے لیے حاضر ہوں۔‘‘ یہ افضل ہے کہ احرام کے آغاز میں نیت کے ساتھ یہ کہا جائے۔

 

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب المناسک : ج 2  صفحہ 291

محدث فتویٰ

 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ