السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا عمرہ یا حج یا طواف و سعی بیت حرام کے ادا کرنے کے لیے نیت کو الفاظ میں ادا کرنا جائز ہے؟ نیت کے الفاظ استعمال کرنا کس وقت جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز، طہارت، روزہ یا کسی بھی دوسری عبادت میں نیت کی الفاظ سے ادائیگی ثابت نہیں ہے حتیٰ کہ حج اور عمرہ میں بھی ثابت نہیں ہے اور نہ آپ نے صحابہ کرام میں سے کسی کو اس کا حکم دیا۔ زیادہ سے زیادہ اس سلسلہ میں جو ثابت ہے وہ یہ کہ ضباعہ بنت زبیر رضی اللہ عنہا نے جب یہ عرض کیا کہ ان کا حج کا ارادہ ہے لیکن وہ بیمار ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(حجي واشترطي‘ ان محلي حيث حبستني "فان لك علي ربك ما استثنيت" ) (صحيح البخاري‘ النكاح‘ باب الاكفار في الدين‘ ح: 5089 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب جواز اشتراط المحوم...الخ‘ ح: 1207 وسنن النسائي‘ مناسك الحج‘ باب كيف يقول اذا اشترط‘ ح: 2767)
’’حج کرو اور ساتھ یہ شرط عائد کر لو کہ میں وہاں حلال ہو جاؤں گی جہاں تو مجھے روک لے گا اس طرح تو نے جو شرط کر لی تھی وہ اب تیرے لیے تیرے رب کے ذمے ہو گی۔‘‘
اور یہ کلام زبان ہی سے تھا کیونکہ عزد حج نذر کی طرح ہے اور نذر زبان سے ہوتی ہے، اس لیے کہ اگر انسان محض دل میں نذر کی نیت کرے تو یہ نذر نہ ہو گی۔ اور جب حج کو آدمی شروع کر دے تو اسے پورا کرنا اسی طرح لازم ہے جس طرح نذر کو پورا کرنا لازم ہے تو یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضباعہ کو حکم دیا کہ وہ اپنی زبان سے اس شرط کو بھی ذکر کریں کہ اگر مجھے رکاوٹ نے روک لیا تو میں وہاں حلال ہو جاؤں گی جہاں مجھے تو روک لے گا اور حدیث سے جو یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اتاني الليلة ات من ربي فقال: صل في هذا الوادي المبارك‘ وقل عمرة في حجه او عمرة وحجة) (صحيح البخاري‘ الحج‘ باب قول النبي صلي الله عليه وسلم العقيق واد مبارك‘ ح: 1534‘ والاعتصام‘ باب ما ذكر النبي صلي الله عليه وسلم وحض علي اتفاق اهل العلم...الخ‘ ح: 7343)
’’آج رات میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا (جبریل علیہ السلام) آیا اور اس نے کہا: کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھو اور کہو: عمرہ حج میں (داخل) ہے یا یہ کہا کہ کہو: حج اور عمرہ (ایک ہی احرام سے ادا کروں گا۔)‘‘
تو اس کا یہ معنی نہیں کہ زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرے۔ اس کا معنی صرف یہ ہے کہ تلبیہ میں حج کا ذکر کرے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے الفاظ کے ساتھ نیت نہیں کی تھی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب