السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا تمتع کرنے والے کے لیے تمتع کا کوئی وقت محدود ہے؟ اور کیا وہ یوم ترویہ سے پہلے بھی حج کا احرام باندھ سکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہاں تمتع کے لیے احرام باندھنے کا وقت محدود ہے اور وہ ہے شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن۔ یہ حج کے مہینے ہیں۔ کوئی شخص شوال سے پہلے اور عید کی رات کے بعد تمتع کا احرام نہیں باندھ سکتا لیکن افضل یہ ہے کہ پہلے صرف عمرہ کا احرام باندھا جائے اور عمرہ سے فراغت کے بعد صرف حج کا احرام باندھا جائے اور یہ ہے تمتع کامل۔ اور اگرکوئی شخص عمرہ اور حج دونوں کا احرام باندھ لے تو اسے متمتع بھی کہتے ہیں اور قارن بھی اور ان دونوں صورتوں میں دم دینا لازم ہے، جسے دم تمتع کہتے ہیں اور اس سے مراد یہ ہے کہ ایسا جانور جو ذبح کیا جائے جسے بطور قربانی کے ذبح کرنا جائز ہو، اس سلسلہ میں قربانی کی طرح گائے یا اونٹ کا ساتواں حصہ بھی کافی ہو کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَمَن تَمَتَّعَ بِالعُمرَةِ إِلَى الحَجِّ فَمَا استَيسَرَ مِنَ الهَدىِ...١٩٦﴾... سورة البقرة
’’تو جو (تم میں سے) حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے تو وہ جیسی قربانی میسر ہو کرے۔‘‘
اور اگر کوئی شکص قربانی نہ کر سکتا ہو تو وہ اس طرح دس روزے رکھے کہ تین تو ایام حج ہی میں اور سات اپنے گھر واپس آ کر رکھے، جیسا کہ قبل ازیں بیان کیا گیا ، حج کا وقت محدود ہے، غیر محدود نہیں ہے۔
اگر کوئی شخص شوال کے آغاز میں احرام باندھے تو پھر عمرہ سے لے کر آٹھ ذوالحج کو حج کا احرام باندھنےتک مدت طویل ہو گی جیسا کہ حضرات صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے احرام باندھا تو آپ نے انہیں یہ حکم دیا تھا کہ احرام کھول کر حلال ہو جائیں۔[1] حضرات صحابہ کرام میں سے بعض مفرد تھے اور بعض قارن تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ حلال ہو جائیں سوائے ان کے جن کے ساتھ قربانی کا جانور ہو تو صحابہ کرام نے طواف کیا، سعی کی، بال کتروائے، اور حلال ہو گئے اور اس طرح وہ متمتع بن گئے تو یوم ترویہ یعنی آٹھ ذوالحج کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ حکم دیا کہ اپنی رہائش گاہوں سے حج کا احرام باندھ لیں، لہذا افضل طریقہ یہی ہے۔ اگر کوئی شخص ذوالحج کے آغاز میں یا اس سے بھی پہلے حج کا احرام باندھ لے تو یہ بھی صحیح ہے لیکن افضل یہ ہے کہ حج کا احرام آٹھ ذوالحج کو باندھے جیسا کہ حضرات صحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے کیا تھا۔
[1] امام بخاری نے اسے کتاب العمرۃ، باب متی یحل المعتمر میں تعلیقا ذکر کیا ہے اور باب عمرۃ التنعیم میں موصولا ذکر کیا ہے۔
صحیح مسلم، الحج،باب حجة النبی صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث: 1218
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب