السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے ماہ شوال کے آخر میں عمرہ ادا کیا اور پھر اس نیت سے گھر واپس لوٹ آیا کہ حج مفرد کروں گا۔ امید ہے رہنمائی فرمائیں گے۔ کیا اس طرح میرا شمار حج تمتع کرنے والوں میں ہو گا اور مجھ پر ہدی لازم ہو گی یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب کوئی انسان شوال یا ذوالقعدہ میں عمرہ ادا کر کے اپنے گھر واپس لوٹ جائے اور پھر حج مفرو کرے تو جمہور کا مذہب یہ ہے کہ تمتع نہیں ہے اور نہ اس پر ہدی لازم ہے کیونکہ یہ تو اپنے اہل خانہ کے پاس واپس لوٹ گیا تھا اور اب اس نے حج مفرد کیا ہے۔ حضرت عمر اور ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مروی ہے۔ جمہور کا بھی یہی قول ہے، جب کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس صورت میں بھی انسان متمتع ہو گا اور اس پر ہدی واجب ہو گی کیونکہ اس نے ایک ہی سال کے حج کے مہینوں میں حج اور عمرہ کو جمع کیا ہے۔ جمہور کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنے گھر واپس لوٹ آئے اور بعض کے بقول مسافت قصر کے بقدر سفر کر لے اور پھر حج مفرد کرے تو وہ تمتع نہیں ہے۔ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ میں حضرت عمر اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول راجح ہے۔ واللہ اعلم۔ کہ جب وہ اپنے گھر واپس لوٹ آئے تو وہ متمتع نہیں ہے ہاں البتہ جو شخص حج کے لیے آئے اور عمرہ ادا کر کے جدہ یا طائف میں رہے اور پھر حج کا احرام باندھ لے تو یہ شخص بلاشبہ متمتع ہی ہو گا۔ طائف، جدہ یا مدینہ جانے سے اس کا تمتع ختم نہیں ہو گا کیونکہ یہ حج اور عمرہ دونوں کی ادائیگی کے لیے آیا ہے اور اس نے جدہ یا طائف کی طرف سفر ضرورت کی وجہ سے کیا ہے یا مدینہ کا سفر زیارت کی وجہ سے کیا ہے تو ظاہر اور راجح بات یہ ہے کہ یہ سفر اس کے تمتع کے خلاف نہیں ہے۔ لہذا اسے حج تمتع کی ہدی کرنا ہو گی۔ نیز اسے حج کے لیے بھی اسی طرح سعی کرنا ہو گی جس طرح اس نے عمرہ کے لیے سعی کی تھی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب