السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس شخص کے بارے میں حکم شریعت کیا ہے جو ریاض سے مکہ مکرمہ جاتا ہے لیکن اس کا ارادہ حج و عمرہ کا نہیں ہے لیکن پھر مکہ میں پہنچ کر اس نے حج کا ارادہ کر لیا اور جدہ سے حج قران کا احرام باندھ لیا تو کیا جدہ سے یہ احرام باندھنا صحیح ہے یا اس صورت میں اس پر دم واجب اور کسی معلوم میقات کے پاس جا کر احرام باندھنا ضروری ہے؟ فتویٰ دیجئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اجروثواب سے نوازے گا۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو شخص ریاض وغیرہ سے مکہ مکرمہ جائے اور اس کا ارادہ حج و عمرہ کا نہ ہو بلکہ اس کا کوئی اور مقصد مثلا تجارت یا اعزہ و اقارب سے ملاقات وغیرہ ہو اور پھر مکہ مکرمہ پہنچ کر اس کا حج کرنے کا ارادہ ہو جائے تو وہ اسی جگہ سے احرام بدنھ لئ جہاں وہ موجود ہو۔ اگر اس وقت جدہ میں ہو تو جدہ سے احرام بدندھ لے اور اگر مکہ میں ہو تو مکہ میں احرام باندھ لے۔ الغرض جس وقت وہ حج یا عمرہ کا ارادہ کرے تو اسی جگہ سے احرام باندھ لے جہاں اس نے یہ ارادہ کیا ہو جب کہ وہ میقات کے اندر ہو اور اس صورت میں اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس کے لیے میقات وہی جگہ ہے جہاں اس نے نیت کی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میقات کا تعین کرتے ہوئے فرمایا تھا:
(ومن كان دون ذلك فمهله من حيث انشا حتي اهل مكة من مكة) (صحيح البخاري‘ الحج‘ باب مهل اهل اليمن‘ ح: 1530 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب مواقيت الحج‘ ح: 1181)
’’جو شخص ان کے اندر ہو تو وہ وہاں سے احرام باندھے جہاں وہ موجود ہو حتیٰ کہ اہل مکہ، مکہ ہی سے (احرام باندھیں۔)‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب