سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(369) عمرہ دو کی طرف سے نہیں ہو سکتا

  • 8916
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1535

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

الحمدللہ ہم ہر سال عمرہ ادا کرنے کے لیے رمضان المبارک میں مکہ مکرمہ جاتے ہیں تو ایک سال میں اپنے باپ کی طرف سے اور دوسرے سال اپنی والدہ کی طرف سے عمرہ کی نیت کر لیتا ہوں لیکن آخری عمرہ جو میں نے کیا ہے تو اس میں دونوں کی طرف سے نیت کی تھی اور جب میں نے اس عمرے کے بارے میں پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ یہ عمرہ آپ ہی کے لیے ہو گا، آپ کے ماں باپ کے لیے نہیں ہو گا تو کیا یہ بات صحیح ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہاں یہ بات صحیح ہے۔ اہل علم کہتے ہیں کہ حج اور عمرہ دو کی طرف سے نہیں بلکہ صرف ایک ہی شخص کی طرف سے ہو سکتا ہے۔ یعنی اپنے لیے یا صرف اپنے باپ یا ماں کے لیے اور یہ ممکن نہیں کہ آدمی دو کی طرف سے لبیک کہے اور اگر کسی نے ایسا کیا تو یہ دو کی طرف سے نہیں بلکہ خود اسی کی طرف سے ہو گا۔

میں یہ بھی کہوں گا کہ ہر انسان کو چاہیے کہ عہ عمرہ، حج، صدقہ، نماز، تلاوت قرآن اور دیگر تمام اعمال صالحہ اپنی طرف سے ادا کرے کیونکہ ہر انسان ان اعمال صالحہ کا خودس محتاج ہے۔ ایک دن آنے والا ہے کہ انسان ایک ایک نیکی کی تمنا کرے گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی یہ رہنمائی نہیں فرمائی کہ لوگ اپنے اعمال صالحہ کو اپنے باپ، ماں ، یا کسی زندہ یا مردہ انسان کی طرف منسوب کر دیں، ہاں البتہ آپ نے یہ ضرور رہنمائی فرمائی ہے کہ فوت شدگان کے لیے دعا کی جائے، چنانچہ آپ کا ارشاد گرامی ہے:

(اذا مات الاسنان انقطع عنه عمله الا من ثلاثة: الا من صدقة جارية‘ او علم ينفع به‘ او والد صالح يدعو له) (صحيح مسلم‘ الوصية‘ باب ما يحلق الانسان من الثواب بعد وفاته‘ ح: 1631)

’’جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے، ہاں البتہ تین طرح کا عمل باقی رہتا ہے (1)صدقہ جاریہ (2) علم جس سے نفع اٹھایا جا رہا ہوں اور (3) نیک بچہ جو اس کے لیے دعا کرتا ہو۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان الفاظ پر غور فرمائیے کہ ’’نیک بچہ جو اس کے لیے دعا کرتا ہو۔‘‘ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ نیک بچہ جو اس کے لیے قرآن پڑھتا ہو یا اس کے لیے دو رکعتیں پڑھتا ہو یا اس کی طرف سے حج اور عمرہ کرتا ہو یا اس کی طرف سے روزہ رکھتا ہو بلکہ آپ نے یہ فرمایا ہے کہ ’’نیک بچہ جو اس کے لیے دعا کرتا ہو۔‘‘ حالانکہ سیاق میں عمل صالح کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ افضل یہ ہے کہ انسان اپنے والدین کے لیے کوئی اور عمل صالح کرنے کی بجائے دعا کرے لیکن اگر کوئی شخص عمل صالح کر کے اسے اپنے والدین یا کسی ایک کی طرف منسوب کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن حج اور عمرہ میں بیک وقت دونوں کی طرف سے لبیک نہ کہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب المناسك: ج 2  صفحہ 269

محدث فتوی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ