السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
چار سال قبل ایک شخص نے ایک طواف کرنے والے سے حج بدل کا خرچہ وصول کیا تاکہ وہ بیرون ملک مقیم ایک شخص کی طرف سے حض کرے لیکن مالی ضرورت اور سستی کی وجہ سے یہ شخص حج نہیں کر سکا اور اب وہ یہ چاہتا ہے کہ حج کر کے بری الذمہ ہو جائے لیکن بیماری کی وجہ سے حج نہیں کر سکتا، ہاں البتہ اس کے لیے تیار ہے کہ خرچ ادا کر دے۔ یاد رہے جس طواف کرنے والے نے اسے حج کے لیے وکیل بنایا تھا وہ اب موجود نہیں ہے اور نہ اس کی جگہ کے بارے میں کچھ معلوم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر امر واقع اسی طرح ہے جس طرح سائل نے ذکر کیا ہے تو اسے چاہیے کہ حج کا خرچ کسی ایسے شخص کو دے دے جو دین اور امانت کے اعتبار سے قابل اطمینان ہو تاکہ وہ اس کی طرف سے حج کر سکے جس کی طرف سے حج کرنے کے لیے اسے مال دیا گیا تھا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا استَطَعتُم...١٦﴾... سورة التغابن
’’سو جہاں تک ہو سکے تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔‘‘
اللہ تعالٰٰ ہم سب کو اپنی رضا کے لیے عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب