سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(341) حج اور ترک نماز

  • 8888
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1345

سوال

(341) حج اور ترک نماز

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فضیلۃ الشیخ! بغیر رغبت اور خواہش کے محض حالات کی مجبوری کی وجہ سے مجھے نصف رمضان کے وقت ایک اجنبی ملک کی طرف سفر کرنا پڑا۔ اپنے ملک میں رمضان کے نصف اول کے میں نے روزے رکھے تھے لیکن جب میں نے سفر کیا تو اس ملک میں قیام کے دوران جو پندرہ دن پر مشتمل تھا میں نے نماز اور روزہ کو ترک کر دیا۔ میں یہ سمجھتی تھی کہ یہ لوگ ناپاک ہیں، ان کی اشیاء ضرورت کو استعمال کرنا جائز نہیں، مجھے قبلہ کی جہت کا بھی علم نہیں تھا، میں نے ان کے کھانے پینے کی کوئی چیز بھی استعمال نہیں کی۔ میرا سوال یہ ہے کہ ان پندرہ دنوں میں میں نے جو نماز اور روزہ ترک کیا تو کیا اس کا میرے اس حج پر تو کوئی اثر نہیں پڑے گا جو میں نے کئی سال پہلے ادا کیا تھا؟ اس نماز اور روزہ کے ترک کی وجہ سے میرے لیے کیا حکم ہے یا اس کی کیا دیت ہے تاکہ اللہ تعالیٰ میرے گناہوں کو معاف فرما دے؟ رہنمائی فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مدت میں ترک نماز و روزہ کا اس حج پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جو آپ نے کئی سال پہلے ادا کیا تھا کیونکہ سابقہ عمل صالح جس چیز سے باطل ہو جاتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان مرتد ہو کر فوت ہو جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَمَن يَر‌تَدِد مِنكُم عَن دينِهِ فَيَمُت وَهُوَ كافِرٌ‌ فَأُولـٰئِكَ حَبِطَت أَعمـٰلُهُم فِى الدُّنيا وَالءاخِرَ‌ةِ ۖ وَأُولـٰئِكَ أَصحـٰبُ النّارِ‌ ۖ هُم فيها خـٰلِدونَ ﴿٢١٧﴾... سورة البقرة

’’اور جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر (کر کافر ہو) جائے گا اور کافر ہی مرے گا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا و آخرت دونوں میں برباد ہو جائیں گے اور یہی لوگ دوزخ میں جانے والے ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘

گناہوں سے سابقہ اعمال صالحہ باطل نہیں ہوتے، لیکن بسا اوقات یہ دیگر جہات سے اعمال صالحہ کو باطل کرنے کا سبب بن جاتے ہیں اور وہ اس طرح کہ جب یہ گناہ بہت زیادہ ہوں اور گناہوں اور نیکیوں میں وزن کے وقت گناہوں کا پلڑا بھاری ہو جائے گی تو پھر گناہوں کی وجہ سے انسان کو عذاب ہو گا، لہذا اب آپ پر واجب ہے کہ مذکورہ دنوں میں ترک نماز کی وجہ سے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کریں، اعمال صالحہ کثرت سے بجا لائیں اور راجح قول کے مطابق ان نمازوں کی قضاء واجب نہیں ہے۔ ان مذکورہ دنوں میں آپ کے لیے روزہ ترک کرنا جائز تھا کیونکہ آپ مسافر تھیں اور مسافر کے لیے روزہ لازم نہیں ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَمَن كانَ مَر‌يضًا أَو عَلىٰ سَفَرٍ‌ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ‌...١٨٥﴾... سورة البقرة

’’اور جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں (روزے رکھ کر) ان کا شمار پورا کر لے۔‘‘

لہذا ان روزوں کی آپ کو قضاء دینا ہو گی۔ نماز ترک کرنے کا آپ نے جو یہ سبب بتایا ہے کہ آپ کو قبلہ کا علم نہیں تھا اور آپ ان کے کھانے پینے کی کسی چیز کو بھی استعمال نہیں کرتی تھیں، تو یہ بات درست نہیں اور نہ اس وجہ سے نماز ترک کرنا درست ہے کیونکہ آپ پر واجب تھا کہ آپ بقدر استطاعت نماز ضرور ادا کرتیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها...٢٨٦﴾... سورة التغابن

’’اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔‘‘

اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا استَطَعتُم...١٦﴾... سورة التغابن

’’سو جہاں تک ہو سکے تم اللہ سے ڈرو۔‘‘

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

(واذا امرتكم بشئي فاتوا منه ما استطعتم) (صحيح البخاري‘ الاعتصام بالكتاب والسنة‘ باب اقتداء بسنن رسول الله صلي الله عليه وسلم‘ ح: 6288 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب فرض الحج مرة...الخ‘ ح: 1337)

’’جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو مقدور بھر اسے بجا لاؤ۔‘‘

لہذا انسان جب کسی ایسی جگہ میں ہو جہاں اسے قبلے کا علم نہ ہو، کوئی جہت قبلہ بتانے والا قابل اعتماد آدمی بھی نہ ہو تو وہ کوشش کر کے جہت قبلہ کا تعین کرے اور جس جہت کے بارے میں ظن غالب ہو کہ قبلہ اس طرف ہے تو ادھر منہ کر کے نماز پڑح لے۔ ان نمازوں کا اعادہ بھی لازم نہ ہو گا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب المناسک : ج 2  صفحہ 254

محدث فتویٰ

تبصرے