السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿الحَجُّ أَشهُرٌ مَعلومـٰتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فيهِنَّ الحَجَّ فَلا رَفَثَ وَلا فُسوقَ وَلا جِدالَ فِى الحَجِّ...١٩٧﴾... سورة البقرة
’’حج کے مہینے (مقرر ہیں جو) معلوم ہیں پس جو شخص ان (مہینوں) میں حج کی نیت کر لے تو حج (کے دنوں) میں عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے اور نہ کسی سے جھگڑے۔‘‘
تو سوال یہ ہے کہ رفث، فسوق اور جدال سے کیا مراد ہے جن سے اس آیت میں منع کیا گیا ہے؟ کیا جو شخص حض کے دوران لڑائی جھگڑا کرتا یا کوئی عبث کام کرتا ہے تو اس کا حج باطل ہو جاتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اہل علم نے "رفث" کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ اس سے مراد عورتوں سے اختلاط اور اس سلسلہ کے اسباب و وسائل ہیں۔ فسوق سے مراد گناہ ہیں اور جدال سے مراد فضول لڑائی جھگڑا ہے یا جس بات کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے واضح فرما دیا ہے تو اس میں جھگڑے کی کوئی گنجائش نہیں۔ "جدال" میں ایسے تنازعات شامل ہیں جو حاجیوں کے لیے ایذاء کا باعث بنیں یا امن عامہ میں خلل ڈالیں یا جن سے مراد باطل کی دعوت دینا اور حق سے روکنا ہو اور وہ جدال جو احسن انداز سے ہو اور حق کو ثابت کرنے اور باطل کو مٹناے کے لیے ہو تو وہ شرعا جائز ہے اور اس جدال میں داخل نہیں جو ممنوع ہے۔
فسوق اور جدال سے حج باطل نہیں ہوتا لیکن ان سے حج، اجروثواب اور ایمان میں نقص ضرور آ جاتا ہے جب کہ تحلل اول سے قبل عورتوں سے اختلاط کی صورت میں حج باطل ہو جاتا ہے۔
حج اور عمرہ کرنے والے کے لیے یہ ضرروی ہے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اطاعت اور اپنے حج و عمرہ کی تکمیل کے لیے ان مذکورہ بالا امور سے اجتناب کرے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب