السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حج کب فرض ہوا تھا اور بات کی کیا دلیل ہے کہ حج فوری طور پر واجب ہے یا یہ تاخیر سے واجب ہوتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحیح قول کے مطابق حج 9 ھ میں فرض ہوا تھا۔ یہ وہی سال ہے جس میں مختلف وفود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور اسے سال سورہ آل عمران نازل ہوئی جس میں یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلِلَّهِ عَلَى النّاسِ حِجُّ البَيتِ مَنِ استَطاعَ إِلَيهِ سَبيلًا...٩٧﴾... سورة آل عمران
’’اور لوگوں پر اللہ کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے، وہ اسی کا حج کرے۔‘‘
یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ حج فوری طور واجب ہے کیونکہ امر (یعنی حکم) کا تقاضا یہ ہے کہ اسے فورا ادا کیا جائے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور اہل سنن نے یہ روایت بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(تعجلوا الي الحج.يعني الفريضة. فان احدكم لا يدري ما يعرض له) (مسند احمد: 313/1)
’’حج یعنی فرض کو جلد ادا کرو کیونکہ تم میں سے کوئی یہ نہیں جانتا کہ اسے کل کیا حالات دو پیش ہوں۔‘‘
ایک اور روایت میں الفاظ یہ ہیں:
(من اراد الحج فليتعجل فانه قد يمرض المريض‘ وتضل الراحلة‘ وتعرض الحاجة) (سنن ابن ماجه‘ المناسك‘ باب الخروج الي الحج‘ ح: 2883 ومسند احمد: 355/1 واللفظ له)
’’جو شخص حج کا ارادہ کرے تو اسے جلدی کرنا چاہیے کیونکہ اسے کوئی مرض لاحق ہو سکتا ہے، سواری گم ہو سکتی ہے اور کوئی ضرورت و حاجت پیش آ سکتی ہے۔‘‘
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہ ہے کہ حج فوری طور پر نہیں بلکہ تاخیر سے ادا کیا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دس ہجری تک مؤخر کر کے ادا فرمایا تھا لیکن اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ آپ نے اسے صرف ایک سال مؤخر کیا ہے کیونکہ آپ کا ارادہ یہ تھا کہ پہلے بیت اللہ کو مشرکوں، برہنہ ہو کر حج کرنے والوں اور بدعات سے پاک فرما دیں۔ چنانچہ جب ان سب سے آپ نے بیت اللہ کو پاک کر دیا تو پھر اس کے بعد والے سال حج ادا فرمایا۔ حج فوری طور پر ادا کرنا اس لیے بھی واجب ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے ادا کرنے سے پہلے موت آجائے اور دانستہ تاخیر کرنے کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہو جائے کیونکہ حدیث میں ہے:
(من ملك زادا وراحلة تبلغه الي بيت الله ولم يحج فلا عليه ان يموت يهوديا او نصرانيا) (جامع الترمذي‘ الحج‘ باب ما جاء من التغليظ في ترك الحج‘ ح: 812)
’’جو شخص زاد راہ اور ایسی سواری کا مالک ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچا سکتی ہو اور پھر حج نہ کرے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ وہ یہودی یا عیسائی کی حیثیت میں مر جائے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب