السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ موطا مالک میں ہے کہ امام مالک بن انس نے رمضان کے بعد شوال کے ان چھ روزوں کے بارے میں کہا ہے کہ میں نے اہل علم و فقہ میں سے کسی کو نہیں دیکھا جو ان وزوں کو رکھتا ہو۔ سلف میں سے بھی کسی کے بارے میں مجھے یہ خبر نہیں ملی، بلکہ اہل علم ان روزوں کو مکروہ سمجھتے اور ڈرتے تھے کہ کہیں یہ بدعت نہ ہوں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ اس طرح رمضان کے ساتھ ایسی چیز کا اضافہ کر دیا جائے جو اس میں سے نہیں ہے۔ موطا امام مالک، حدیث: 228
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(من صام رمضان ثم اتبعه ستا من شوال فذلك صيام الدهر) (صحيح مسلم‘ الصيام‘ باب استحباب صوم ستة ايام...الخ‘ ح: 1164 و جامع الترمذي‘ الصوم‘ باب ما جاء في صيام ستة...الخ‘ح: 759 واللفظ له)
’’جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر ان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھ لیے تو یہ ایسے ہے جیسے اس نے سال بھر کے روزے رکھ لیے۔‘‘
یہ حدیث صحیح ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شوال کے چھ روزے رکھنا سنت ہے۔ امام شافعی، امام احمد اور ائمہ علماء کی ایک جماعت نے اس سنت کے مطابق عمل کیا ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے کہ اس حدیث کے مقابلہ میں بعض علماء کی یہ بات پیش کی جائے کہ شوال کے یہ روزے مکروہ ہیں کیونکہ جاہل یہ سمجھیں گے کہ شاید یہ بھی رمضان کے روزے ہیں یا شاید وہ یہ سمجھیں کہ یہ روزے بھی واجب ہیں یا کوئی یہ کہے کہ اسے سابقہ اہل علم میں سے کسی کے بارے میں یہ معلوم نہیں جو یہ روزے رکھتا ہو۔ یہ سب باتیں محض ظنون و اوہام ہیں۔ صحیح سنت کے مقابلہ میں ان کی کوئی حیثیت نہیں اور جس شخص کو کسی سنت کا علم ہو گیا، وہ اس کے مقابلہ میں حجت ہے جس کو اس کا علم نہ ہو سکا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب