سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(306) والدین کی طرف سے صدقہ

  • 8850
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1875

سوال

(306) والدین کی طرف سے صدقہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض لوگ رمضان میں جانور وغیرہ ذبح کر کے دعوتوں کا اہتمام کرتے اور انہیں اپنے والدین کی طرف سے صدقہ کا نام دیتے ہیں، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فوت شدہ والدین کی طرف سے صدقہ کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں لیکن صدقہ کے بجائے دعا کرنا افضل ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں ہماری اسی طرف رہنمائی فرمائی ہے:

(اذا مات الاسنان انقطع عنه عمله الا من ثلاثة: الا من صدقة جارية‘ او علم ينفع به‘ او والد صالح يدعو له) (صحيح مسلم‘ الوصية‘ باب ما يحلق الانسان من الثواب بعد وفاته‘ ح: 1631)

’’انسان جب فوت ہو جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے ہاں البتہ تین طرح کا عمل باقی رہتا ہے (1)صدقہ جاریہ (2) وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہو اور (3) وہ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔‘‘

تو اس حدیث میں آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ نیک اولاد جو اپنے والدین کی طرف سے صدقہ کرتی ہو یا نماز پڑھتی ہو۔ تاہم اگر کوئی شخص اپنی کسی میت کی طرف سے صدقہ دے تو یہ بھی صحیح ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے اسے جائز قرار دیا تھا۔[1]

لیکن بعض لوگ رمضان کی راتوں میں جانور ذبح کر کے بہت سی ایسی دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں جن میں سرمایہ دار ہی شرکت کرتے ہیں تو یہ مشروع نہیں ہے اور نہ سلف صالح سے اس طرح ثابت ہے۔ لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ یہ تو درحقیقت محض کھانے پینے اور مل بیٹھنے کے بہانے ہیں۔ بعض لوگوں کا جو یہ تصور ہے کہ تقرب الہی کے لیے ضروری ہے کہ جانور خود ذبح کیا جائے اور وہ بازار سے گوشت خرید کر پکانے کی نسبت خود (اپنے ہاتھ سے) ذبح کرنے کو افضل قرار دیتے ہیں تو یہ خلاف شرع ہے کیونکہ تقرب الہی کے حصول کے لیے شریعت نے جن ذبیحوں کا حکم دیا ہے وہ صرف قربانی، ہدی اور عقیقہ ہیں، لہذا رمضان میں تقرب الہی کے حصول کی نیت سے جانور ذبح کرنا سنت نہیں ہے۔


[1] صحیح بخاري، الجنائز، باب موت الفجاة البغتة، حدیث: 1388 و صحیح مسلم، الزکاة، باب وصول ثواب الصدقة...الخ، حدیث: 1004

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الصيام: ج 2  صفحہ 224

محدث فتویٰ

تبصرے