السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا رمضان المبارک میں اعتکاف سنت مؤکدہ ہے؟ غیر رمضان میں اعتکاف کے لیے کیا شروط ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رمضان میں اعتکاف سنت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات پاک میں اعتکاف فرمایا اور آپ کے بعد ازواج مطہرات بھی اعتکاف فرماتی رہی تھیں۔ [1]اہل علم نے بیان کیا ہے کہ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ اعتکاف مسنون ہے لیکن ضروری ہے کہ اعتکاف اس مقصد سے ہو جس کے لیے اسے مشروع قرار دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ انسان مسجد میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اطاعت کے لیے گوشہ نشین ہو، دنیا کے کاموں کو خیر باد کہہ کر اطاعت الہی کے لیے کمر ہمت باندھ لے اور دنیوی امور سے بالکل دست کش ہو کر انواع و اقسام کی اطاعت و بندگی بجا لائے، نماز اور ذکر الہی کا کثرت سے اہتمام کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیلۃ القدر کی تلاش و جستجو کے لیے اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ معتکف کو چاہیے کہ وہ دنیوی مشاغل سے بالکل دور رہے، خریدو فروخت کا بالکل کوئی کام نہ کرے، مسجد سے باہر نہ نکلے، جنازہ کے لیے بھی نہ جائے اور نہ کسی مریض کی بیمار پرسی کے لیے جائے۔ بعض لوگوں میں جو یہ رواج پا گیا ہے کہ اعتکاف کرنے والوں کے پاس دن رات آنے جانے والوں کا تانتا باندھا رہتا ہے اور ان ملاقاتوں کے دوران ایسی گفتگو بھی ہو جاتی ہے جو حرام ہے تو یہ سب کچھ اعتکاف کے مقصود کے منافی ہے۔
ہاں اعتکاف کے دوران گھر کا کوئی فرد ملنے کے لیے آئے اور باتیں کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں تھے تو حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا ملاقات کے لیے تشریف لائیں اور انہوں نے آپ سے کچھ باتی بھی کیں۔[2] خلاصہ کلام یہ کہ انسان کو چاہیے وہ اپنے اعتکاف کو تقرب الہی کے حصول کا ذریعہ بنا لے۔
[1] صحیح بخاري، الاعتکاف، باب الاعتکاف فی العشر الاواخر، حدیث: 2026 وصحیح مسلم، الاعتکاف، باب اعتکاف العشر الواخر...الخ، حدیث 1172
[2] صحیح بخاري، الاعتکاف، باب ھل یخرج المعتکف لحوائجه...الخ، حدیث: 2035 وصحیح مسلم، السلام، باب بیان انه یستحب لمن رنی خالیا بامراة...الخ، حدیث: 5712
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب