السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہماری مسجد کا امام نماز تراویح اس قدر جلدی پڑھاتا ہے کہ اس عظیم فرصت سے استفادہ کرتے ہوئے ہم دعا مانگ سکتے ہیں نہ تسبیح پڑھ سکتے ہیں اور نہ نماز خشوع سے ادا کر سکتے ہیں۔ وہ صرف تشہد اول پر اکتفا کرتا یعنی "اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمدا عبده ورسوله" تک پڑھتا اور کہتا ہے کہ بس اس قدر تشہد کافی ہے۔ یعنی درود شریف نہیں پڑھتا اور کہتا ہے کہ یہ اضافہ ہے اور قراءت بھی صرف ایک یا دو آیتوں کی کرتا ہے۔ امید ہے آپ رہنمائی فرمائیں گے۔ جزاکم اللہ خیرا
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ائمہ کے لیے حکم شریعت یہ ہے کہ نماز خواہ تراویح ہو یا فرض اسے نہایت اطمینان و سکون سے پڑھائیں۔ قراءت ترتیل کے ساتھ کریں۔ رکوع و سجود خشوع کے ساتھ کریں اور رکوع کے بعد اور دونوں سجدوں کے درمیان کامل اعتدال سے کام لیں اور تمام نمازیں خواہ وہ فرض ہوں یا نفل نہایت اطمینان و سکون سے پڑھائیں کیونکہ طمانیت فرض ہے اور اس کے بغیر چارہ کار ہی نہیں۔ جو شخص نماز میں طمانیت کو ترک کر دے اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے کیونکہ "صحیحین" میں حدیث موجود ہے[1] کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا جو کہ اطمینان کے ساتھ نماز نہیں پڑھ رہا تھا تو آپ نے اسے دوباری نماز پڑھنے کا حکم دیا اور اس کی رہنمائی کرتے ہوئے اسے بتایا کہ رکوع و سجدہ میں طمانیت واجب ہے، نیز رکوع کے بعد اور دو سجدوں کے درمیان اعتدال واجب ہے لہذا ائمہ مساجد کو چاہیے کہ ترتیل اور خشوع کے ساتھ قراءت کیا کریں تاکہ قراءت سے خود بھی استفادہ کریں اور ان کی اقتدا میں نماز ادا کرنے والے مقتدی بھی استفادہ کر سکیں۔ ترتیل اور خشوع سے کی گئی قراءت سن کر ہی دلوں میں تحریک، خشوع اور اللہ تعالیٰ کی طرف انابت اور توجہ پیدا ہوتی ہے۔
امام اور مقتدیوں پر یہ بھی واجب ہے کہ تشہد میں شہادتین کے بعد سلام سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر درود ابراہیمی پڑھیں[2] کیونکہ یہ ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے[3] لہذا اہل علم کی ایک بہت بڑی جماعت نماز میں درود شریف کی فرضیت کی قائل ہے۔ امام اور مقتدیوں کے لیے یہ جائز نہیں۔۔۔ خواہ نماز کا مسئلہ یا کوئی اور۔۔۔ کہ وہ شریعت مطہرہ کی مخالفت کریں۔ امام، مقتدی اور انفرادی طور پر نماز ادا کرنے والے سب لوگوں کے لیے یہ بھی حکم شریعت ہے کہ وہ نماز میں درود شریف کے بعد اور سلام پھیرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے عذاب جہنم، عذاب قبر، فتنہ موت و حیات اور فتنہ مسیح دجال سے پناہ بھی طلب کریں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا بھی یہ عمل تھا اور آپ نے امت کو اس دعا کے مانگنے کا حکم بھی دیا ہے۔[4] اسی طرح سلام سے پہلے کوئی اور دعا ساتھ ملا لینا بھی مستحب ہے، مثلا اس موقع پر وہ مشہور دعا بھی مانگی جا سکتی ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یہ وصیت فرمائی کہ وہ ہر نماز کے آخری حصہ میں یہ دعا ضرور مانگیں:
(اللهم اعني علي ذكرك وشكرك وحسن عبادتك) (سنن ابي داود‘ الوتر‘ باب في الاستغفار‘ ح: 1522)
’’اے اللہ! تو اپنا ذکر کرنے اور اپنا شکر ادا کرنے پر اور اپنی بہترین عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔‘‘
[1] صحیح بخاري، الاذان، باب وجوب القراءة للامام والقاموم...الخ، حدیث: 757 وصحیح مسلم، الصلاۃ، باب وجوب قراءة الفاتحة في کل رکعة...الخ، حدیث: 397
[2] صحیح بخاري، التفسیر، باب قولہ ان اللہ و ملائکته یصلون علی النبي، حدیث: 4797 وصحیح مسلم، الصلاة، باب الصلاة علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم بعد التشھد، حدیث 407
[3] صحیح مسلم، المساجد، باب ما یستاذ منه فی الصلاة، حدیث: 588
[4]سنن ابي داؤد، الصلاة باب فی الاستغفار، حدیث: 1522
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب